مالدار نہ ہو تووصیت ہی نہ کرے، وارثوں کے لیے چھوڑ دے کہ اچھی طرح آرام سے گذر کریں ، کیونکہ اپنے وارثوں کو آسائش و آرام میں چھوڑ جانے میں بھی ثواب ملتا ہے ہاں البتہ اگر ضروری وصیت ہو جیسے نماز وروزہ کا فدیہ تو اس کی وصیت بہر حال کرجائے ورنہ گناہ ہوگا۔
اور اگر کسی کے کوئی وارث نہ ہوتو اس کو پورے مال کی بھی وصیت کردینا درست ہے اور اگر صرف بیوی ہے تو تین چوتھائی کی وصیت درست ہے، اور اگر کسی کے صرف میاں (شوہر) ہیں تو آدھے مال کی وصیت درست ہے۔
(بہشتی زیور ص:۵۹)
میراث کے مسئلہ میں ورثاء کی کوتاہی
آج کل لوگ میراث کے مسئلہ میں بہت زیادہ بے احتیاطی کرتے ہیں کیونکہ خود مالک تو اپنے ہاتھ سے تقسیم کرتا نہیں مرنے والا تو مرگیا اب جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ بس جس کے ہاتھ میں کنجی ہوئی وہ مالک بن بیٹھا۔ میراث کے معاملہ میں لوگوں کو ذرابھی احتیاط نہیں اکثر تو چھپا ہی لیتے ہیں ، دوسرے وارثوں کو پتہ ہی نہیں چلنے دیتے (کہ اس کے پاس کیا کیا سامان تھا) اکثر لوگ زبردست ہونے کی وجہ سے قابض ہوجاتے ہیں اور زیادہ بے فکری (اور ظلم ) وہاں ہوتا ہے جہاں قانون سے بھی انہیں کو ملتا ہو جیسے کہ اودھ میں قانون ہے کہ میراث کا مالک بڑا لڑکا ہوتاہے اور دوسرے لوگ وظیفہ خوار۔ خوب سمجھ لو کہ یہ بالکل حرام ہے۔ شریعت نے میراث کے احکام خود مقرر کئے ہیں ، کوئی قانون شریعت کو منسوخ نہیں کرسکتا، شریعت نے میراث میں جن جن لوگوں کا حق رکھا ہے ان کو پہنچانا واجب ہے دوسرے کے حق سے نفع اٹھانا یا کسی اور کو دینا حلال نہیں ۔ (التبلیغ احکام المال ۱۵؍۸۷)