نے کب دیا تھا کہ انہوں نے انکار کیا البتہ لحاظ ومروت کی وجہ سے انہوں نے مانگا نہیں ، اس سے کسی کا مال حلال نہیں ہوسکتا، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے دینا چاہا تھا انہوں نے نہیں لیا، یہ عذر بھی ناکافی ہے۔ یہ نہ لینا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ لوگ ملامت کریں گے یہ شرعاً معتبر نہیں ۔ ایک نہ لینا محض دلی رضامندی سے ہوتاہے، (اور ایک ملامت اوربدنامی کے اندیشہ سے) اس کا فیصلہ ہر شخص انصاف سے خود کرسکتا ہے۔ اس زمانہ میں چونکہ اکثر لوگ حاجتمند اور مفلس ہیں اور مال کی محبت اکثر دلوں میں راسخ ہے، اس لیے رسمی اجازت کا اعتبار نہیں ۔ بلکہ ضروری ہے کہ مورث کے مرنے کے بعد سب کا نام بھی درج کرایا جائے، اور ششماہی یا سالانہ آمدنی پر سب حساب کرکے ہر ایک کا حصہ روپیہ یا غلہ اصرار کرکے دیا جائے، اگر اعلان سے (یعنی سب کے سامنے ) لینا اس کو ناگوار ہو تو خفیہ طور پر اس کی جائداد وغیرہ تقسیم کرکے اس کو حوالہ کردے۔ اور اگر وہ انتظام نہ کرسکے، تو یہ شخص وکالتاً اس کی جانب سے انتظام کرے، یا اس کی خوشی سے مناسب طور سے ٹھیکہ پر لے لے اور ٹھیکہ کی رقم اس کو ادا کرتا رہے۔
(اصلاح الرسوم ص:۱۶۲)
میراث کے حصہ سے اسی کی شادی کرنا
عام طور سے دستور ہے کہ اکثر مورثِ اعلیٰ (مثلاً باپ) کے مرنے کے بعد چچا یا بھائی وغیرہ کسی لڑکے یا لڑکی کا نکاح اس کے حصہ سے جو اس کو میراث سے ملا ہے کردیتے ہیں ، اور فضول اخراجات میں اس کو برباد کردیتے ہیں اور اپنے ذہن میں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے تو اس کی چیز اس کو لگادی ، کون سا گناہ کیا۔
اس کی تو ایسی مثال ہوئی کہ کسی مسخرہ میزبان نے دعوت کرکے مہمانوں کی جوتیاں بیچ کر ان کو مٹھائی کھلادی تھی اور کہا تھا کہ یہ آپ ہی کی جوتیوں کا