بلکہ حسّی حد بندی ہونا چاہئے۔ یہ تو ہبہ کے لیے شرط ہے۔
اور ایک شرط دیانۃً بھی ہے وہ یہ کہ خوش دلی اور طیب خاطر(یعنی دلی مرضی) سے ہونا چاہئے، اگر خوش دلی نہیں توہبہ سے ملک تو ہوجائے گی مگر ملک خبیث رہے گی۔
دیکھئے میاں بیوی کے بارے میں ارشاد ہے کہ اگر وہ مہر معاف کردیں خوشی خوشی تو کھاؤ، ورنہ نہیں ۔ میاں بیوی میں جتنی بے تکلفی ہوتی ہے اتنی بھائی بہن میں نہیں ہوتی تو یہاں کیوں کر طیب خاطریعنی دلی رضامندی کا لحاظ ضروری نہ ہوگا۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ بہن جو دیتی ہے وہ طیب خاطر سے نہیں دیتی، بلکہ بدنامی کے خوف سے دیتی ہے اس لیے یہ ہبہ اللہ کے نزدیک صحیح نہیں ہوا۔ باقی یہ بات کہ خوش دلی کیسے معلوم ہو تو اس کی صورت یہ ہے کہ جائداد تقسیم کرکے بہن کو اس کے حصہ پر قبضہ کرادو اور دو تین سال تک اسے جائداد کی آمدنی سے نفع اٹھانے دو کہ اسے جائداد کا لطف تو آجائے اور معلوم ہوجائے کہ زمینداری کیا چیز ہے، اس کے بعد دیکھئے کتنی بہنیں اپنا حصہ دیتی ہیں ۔
(اسرار العبادۃ ، حقیقت عبادت ص:۱۵۵)
لڑکیوں ، بہنوں کو حصہ دینے میں واقعی بڑی کوتاہی
عام رواج ہے کہ لڑکیوں کو اور بہنوں کو ترکہ سے (یعنی میراث سے) حصہ نہیں دیتے، جو صریح نص قطعی کے خلاف ہے، اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء میں فرمایا ہے جو کچھ مال ماں باپ، اقارب نے چھوڑا ، اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے ، تھوڑا مال چھوڑا ہو یا زیادہ، یہ حصہ فرض کیا ہوا ہے ایسے صاف حکم کے خلاف پر کس طرح جرأت ہوتی ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ صاحب وہ لیتی نہیں ، ان سے پوچھنا چاہئے کہ تم