تیسرے یہ کہ دنیا میں اگر چہ کم ہوتا ہوا نظر آتا ہے مگر وہاں (یعنی آخرت میں ) جمع ہوتا ہے ، آخر ڈاکخانہ میں بینک میں روپیہ جمع کرتے ہو، تمہارے قبضہ سے تو نکل ہی جاتاہے مگر اطمینان ہوتا ہے کہ معتبر جگہ جمع ہے نفع بڑھتا رہتا ہے، اسی طرح ایمان والے کو خداوند جل شانہ کے وعدوں پر اعتماد کرکے سمجھنا چاہئے کہ وہاں جمع ہورہا ہے، اور قیامت کے روز اصل مال کے ساتھ ایسے موقع پر ملے گا جس وقت کہ سخت ضرورت ہوگی۔
اس کے علاوہ مال کی حفاظت کے واسطے چوکیدار نوکر رکھتے ہو اس کی تنخواہ دینی پڑتی ہے باوجودیکہ تعداد گھٹ جاتی ہے مگر اس ڈر سے کہ تھوڑی بچت کے واسطے کہیں سارا روپیہ نہ چوری ہوجائے، اس لیے رقم خرچ کرنا گوارا ہوتا ہے، اسی طرح زکوۃ ادا کرنے کو مال کا محافظ سمجھو۔
حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ نہ دینے سے مال ہلاک ہوجاتا ہے (اس کی وجہ سے کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی مصیبت ضرور آتی ہے)۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ مخلوق کسی مال کی زکوٰۃ نہیں روکتی،مگر وہ اس مال کو ہلاک کردیتی ہے۔ (رواہ الشافعی والبخاری)
اورا یک روایت میں ہے کہ تجھ پر زکوٰۃ واجب ہوئی اور تو نے اس کو نہ نکالا ہو سو یہ حرام اس حلال کو ہلاک کرڈالتا ہے۔
سو اپنے مال ہی کی حفاظت کے لیے زکوٰۃ ادا کرو، پھر یہ کہ ایسا کوئی شخص نہیں ہے جس کو ضرورت مندوں کے لیے کچھ نہ کچھ خرچ نہ کرنا پڑتا ہو کاش اگر حساب کرکے خرچ کریں تو زکوٰۃ سہولت سے ادا ہوجائے ۔
(فروع الایمان ص:۵۷)