اسراف کی تعریف اور اس کے حدود
اسراف اس خرچ کو کہتے ہیں جس میں کوئی مصلحت نہ ہو۔
عرض کیا گیا کہ اسراف کی حد کیا ہے؟ فرمایا جو اجازت شرعی کے خلاف خرچ ہو وہ اسراف ہے خواہ بظاہر نیک ہی کام ہو، مثلاً جس پر بیوی بچوں کا نفقہ واجب ہو اس کو سارا مال خیرات کردینا (یا دعوتوں میں پیسہ اڑانا) اسراف ہے۔ اور کھانے پینے میں وسعت کرنا بشرطیکہ کسی حد شرعی سے تجاوز لازم نہ آئے اسراف میں داخل نہیں ۔ (حسن العزیز ۱؍۶۶)
سامان خریدنے میں اسراف
اسراف کے متعلق یہ کہتا ہوں کہ جب کوئی چیز خریدنا چاہو تو سوچ لو کہ ضرورت ہے یا نہیں اگر فوراً ضرورت ذہن میں آجائے تو خرید لو، اگر فوراً ضرورت ذہن میں نہ آئے تو نہ خریدو۔ کیونکہ جس ضرورت کوآدھے گھنٹہ تک سوچ سوچ کر پیدا کیا جائے وہ ضرورت نہیں اور اگر دل میں بہت ہی تقاضا (اس شئے کے خریدنے کا) ہو اور معتدبہ (قابل اعتبار) ضرورت سمجھ میں نہ آئے توایسی صورت میں چیز خرید لو اور اطمینان سے بیٹھ کر سوچتے رہنا اگر اسراف نہ ہونا محقق ہوجائے تورکھ لو، ورنہ خیرات کردو، ضرورت کی دو قسمیں ہیں ، ایک تحصیل منفعت (یعنی آرام دہ اور نفع بخش) دوسری دفع مضرت (جس سے تکلیف دور ہو)۔
(ارضاء الحق ص:۱۲۳، ملحقہ تسلیم و رضاء)