ذمہ تھا) میں نے کہا میاں بیوی کے علاوہ سب کے چولہے الگ کرو، اور میں نے کہہ دیا کہ دیکھو میرا نام مت ظاہر کرنا کہ یہ اس کی رائے ہے، مگر اس پر رشتہ داروں نے ان کا بہت پیچھا کیا آخر مجبور ہوکر انہوں نے میرا نام لے دیا کہ یہ میں نے ان کی رائے سے کیا، تب کہیں وہ لوگ چپ ہوئے۔
خلاصہ یہ کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنا چاہے، تو نقد دے دے کھانے وغیرہ کا قصہ نہ پھیلائے اس میں بڑی خرابیاں پیش آتی ہیں ۔
(التبلیغ احکام المال ص:۱۱۱)
اہل اللہ کی بے تکلفانہ معاشرت کے چند واقعات
ایک مرتبہ کا قصہ ہے کہ مولانا مملوک علی صاحب دہلی سے آرہے تھے، جب کاندھلہ پہنچے تو مولانا مظفر حسین صاحب سے ملنے کے لیے سواری ٹھہرائی اور سواری وہیں چھوڑ کر مولانا سے ملنے گئے، مولانا مظفر حسین صاحب کاندھلویؒ گھر کے مالدار تھے مگر آپ کی سادگی دیکھئے کہ آپ نے پوچھا کھانا کھاچکے ہو یا کھاؤ گے؟ مولانامملوک علی صاحب نے کہا کہ کھائیں گے، انہوں نے فرمایا کہ تازہ تیارکراؤں یا جورکھا ہوا ہو وہی لے آؤں ؟ مولانا مملوک علی صاحب نے فرمایا کہ جو موجود ہو وہی لے آئیں ، بس آپ ایک مٹی کی رکابی میں کھچڑی کی کھرچن لے آئے اور کہا رکھا ہوا، تو یہ ہے۔ وہ بھی ایسے ہی تھے، بس انہوں نے اسی کو کھالیا اور پانی پی کررخصت ہوگئے، یہ حالت تھی ان حضرات کی کہ جو ہوا وہ سامنے رکھ دیا۔
ایک دفعہ مولانا مظفر حسین صاحبؒ گنگوہ تشریف لے گئے، مولانا گنگوہیؒ کے مہمان ہوئے صبح جب رخصت ہونے لگے، مولاناگنگوہیؒ نے کھانے کے لیے عرض کیا ، مولانا مظفر حسین صاحب رامپور جانے والے تھے، فرمایا کہ میری منزل کھوٹی ہوگی (یعنی سفر میں دیر ہوگی) کیونکہ کھانا تیار ہونے