اسی طرح کفن کے علاوہ اوپر کی چادر اور جائے نماز سب کفن سے خارج ہے اور عام رواج یہی ہے کہ میت کے مشترکہ ترکہ سے بنا یا جاتا ہے، سو ان چیزوں میں بھی غصب اور ظلم کا گناہ ہوتاہے کیونکہ غیر کے حق میں تصرف کرنا پایا جاتا ہے، اس لیے احتیاط کرنا ضروری ہے۔ پس اگر میت نے صراحۃً وصیت کی ہو کہ میرے کپڑے مسکینوں یا صلحاء کو دے دئیے جائیں تو یہ وصیت ثلث ترکہ (یعنی تہائی مال) میں جاری ہوگی، یعنی جس قدر کپڑوں کے لیے وہ وصیت کرگیا ہے اگر کل ترکہ کے ثلث (تہائی) سے قیمت میں زائد نہ ہو تو بلا کسی وارث کے دریافت کئے ہوئے بھی تقسیم کردئیے جائیں ۔ ورنہ (شرعی حصہ کے موافق ہر وارث کو) پہلے تقسیم کرنا چاہئے۔ جب ہر شخص اپنے حصہ پر قابض ہوجائے پھر ہر ایک کو اپنی چیز کا اختیار ہے جس کو چاہے دے یا نہ دے، اور نابالغوں کا حصہ اگر ان کے کام آسکتا ہو تو رکھا جائے، ورنہ فروخت کردیا جائے، اور وہ رقم ان کے کاموں میں لگادی جائے، البتہ کسی جگہ وارث بالغ ہوں اور وہ سب اجازت دے دیں تب بلا تقسیم بھی صرف کردینا جائز ہے، اور اگر لینے والے کو حال معلوم نہ ہو تو واجب ہے کہ خوب تحقیق کرلیا کرے، اہل مدارس و مساجد کو اس کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے ۔ ان کی احتیاط سے عوام بھی متنبہ ہوجائیں گے۔ (اصلاح الرسوم ص:۱۶۰)
اہل علم اور اہل مدراس کی کوتاہی
زیادہ افسوس یہ ہے کہ اہل علم بھی اس کی پرواہ نہیں کرتے، مدارس تک میں اس کی احتیاط نہیں ۔مدارس میں (کسی انتقال کے بعد اس کے ترکہ سے) قیمتی قیمتی سامان اس قسم کے آتے ہیں مجھ کو یاد نہیں کہ کوئی خط کسی مدرسہ کی طرف سے اس مضمون کا گیا ہو کہ سامان جو بھیجا ہے سب ورثاء کی اجازت سے بھیجا