مال خرچ کرنے میں بے احتیاطیاں
مال خرچ کرنے میں بے احتیاطی دو قسم کی ہوتی ہے ایک تو یہ کہ کھلم کھلا معصیت (گناہ کے کاموں ) میں مال خرچ کیا جائے، دوسری صورت یہ ہے کہ کھلی معصیت میں تو مال خرچ نہیں کیا مگر خرچ حد سے زیادہ کیا شہوتوں میں منہمک ہوگئے تنعم و تفاخر ، عیش پرستی اور فخر میں اڑانا شروع کردیا۔
خوب سمجھ لیجئے کہ تنعم وتفاخر کا انجام ذلت ہے کیونکہ مال کی کوئی حد تو ہے نہیں کہ کتنا ہی خرچ کرو اور وہ کم نہ ہو ، انجام یہ ہوتا ہے کہ مکان تک بکنے کی نوبت آجاتی ہے۔
میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ مسجد میں پانی بھرتے تھے اور لوگ ان کو نواب کہہ کر پکارتے تھے میں نے کہا کہ یہ نواب کیسے ہیں معلوم ہوا کہ واقعی نواب تھے اپنے آپ کو تباہ کرکے اس حالت پر آگئے ، میں نے کہا شاباش یہ انجام ہے مسلمانوں کا، سیکڑوں مالدار فضول خرچیوں کی بدولت تباہ ہورہے ہیں ۔ جائدادیں ہندوؤں کے قبضہ میں جارہی ہیں ۔ (التبلیغ ۱۵؍۹۷، احکام المال)
بخل کے مقابلہ میں فضول خرچی زیادہ بری اور تباہ کن ہے
بخل اور اسراف دو چیزیں ہیں بخل سے پریشانی نہیں ہوتی، اور فضول خرچی سے پریشانی ہوتی ہے، جس کا انجام پریشانی ہو، وہ اس سے بری ہے جس سے پریشانی نہ ہو۔
آثار کے اعتبار سے اسراف زیادہ برا ہے بخل کا نتیجہ صرف دوسرے کو نفع نہ پہنچانا ہے اور اسراف کا نتیجہ دوسروں کو نقصان پہنچانا ہے کیونکہ جب اپنے پاس نہیں تو دوسروں کا مال ان کو دھوکہ دے کر قرض وغیرہ لے کر اڑاتا ہے، پھر ادا بھی نہیں کرتا، ہم نے مسرفین (فضول خرچی کرنے والوں ) کو مرتد ہوتے