مالک سمجھتی ہیں یہ بھی ظلم ہے، جو چیز شوہر نے اس کو ہبہ کردی وہ بے شک اس کی ہے ورنہ اور سب مشترک ترکہ (میراث) ہے حسب فرائض (یعنی وارثوں کے حصہ کے اعتبار سے) سب کو دینا چاہئے۔
۳- ایک کوتاہی یہ کہ اگر دولہن اپنے میکہ میں مرجائے تو اس کے تمام سامان پر وہ لوگ قبضہ کرلیتے ہیں ، اگر سسرال میں مرجائے تو وہ لوگ قبضہ کرلیتے ہیں ، ہم نے کہیں شرعی اعتبار سے تقسیم ہوتے سنا ہی نہیں ، اس میں بھی اوپر کی وعیدکو یاد رکھنا چاہئے۔
۴- ایک کوتاہی یہ کہ بعض لوگ لڑکیوں کو میراث نہیں دیتے جو قرآن کی نص سے حرام اور ظلم ہے۔
۵- ایک کوتاہی یہ کہ کبھی میت کے وارثوں میں وہ بچہ بھی ہوتا ہے جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہو، ہم کو یاد نہیں کہ کسی مستفتی نے سوال میں کبھی اس کو ظاہر کیا ہو اور ہم جواب دینے والے لوگوں کی بھی کوتاہی ہے کہ اس کا احتمال ہی نہیں ہوتا،اور سوال کرنے والے اس کی تحقیق ہی نہیں کرتے، حالانکہ مذہب کا ضروری مسئلہ ہے۔ اس بچہ کے پیدا ہوئے بغیر میراث کی تقسیم معلق رہے گی۔ (اصلاح انقلاب ۱؍۲۴۲،۲۴۳)
میراث کی تقسیم میں کوتاہی
میراث کے تقسیم کرنے میں اولاً تو یہ کوتاہی ہوتی ہے کہ جس جس وارث کو شریعت نے مستحق ٹھہرادیا ہے اس کے مطابق آج کل ورثاء کے حقوق ہی نہیں سمجھتے بلکہ عام رواج میں جس کو وارث کہا جائے وہی حقدار سمجھا جاتا ہے اور یہ صریح مقابلہ ہے شریعت کا جس سے کفر کا اندیشہ ہے۔ اس سے توبہ کرو اور شریعت کے مطابق میراث تقسیم کیا کرو۔