میرے پاس تمہارے پاس پہنچتے ہیں اور ہاتھ پھیلاتے ہیں کہ آٹھ آنہ پیسہ دے دیجئے بہت ضرورت ہے، جو لوگ پردیس سے آتے ان کے پاس پہنچ جاتے، میرے والد صاحب کے پاس بھی اکثر آتے، میں اس زمانے میں پڑھا کرتا تھا، ان کی یہ حالت میں دیکھا کرتا تھا مگر لوگ کہاں تک دیں ، انہوں نے تو پیشہ ہی بنا لیا تھا، آخر انکار کردیتے جس وقت ان کے پاس جائداد وغیرہ تھی اس وقت اگر کوئی نصیحت کرتا کہ اس طرح فضول خرچیاں مت کرو، جائداد کو بیچ بیچ کر مت اڑاڈالو، دیکھو تمہارے باپ نے کس طرح مشقت سے جائداد خریدی تھی، توآپ فرماتے ہمارے باپ بے وقوف تھے کہ چاندی دے کر مٹی لیتے تھے، یعنی روپیہ دے کر زمین خریدتے تھے، ہم مٹی دے رہے ہیں اور چاندی خرید رہے ہیں ، یعنی زمین بیچ رہے ہیں اور روپیہ لے رہے ہیں ، مگر انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ مٹی چاندی کی بھی ماں ہے جس کے پاس زمین ہے اس کے پاس سب کچھ ہے۔ (التبلیغ ۱۵؍۹۹)
فضول خرچی سے احتیاط میں بڑی برکت ہوتی ہے
اگر آدمی فضول خرچی سے بچے تو بڑی برکت ہوتی ہے، فضول خرچی بڑی نقصان دہ چیز ہے، اس کی بدولت مسلمانوں کی جڑکھوکھلی ہوگئی ہے۔
آج کل فضول خرچی کا نام ’’بلند حوصلگی‘‘ رکھا ہے اس بلند حوصلگی کے نتائج یہ ہوتے ہیں کہ اپنے مال سے گذر کر دوسروں کے مال پر نظر ہوتی ہے، قرض لیتے پھرتے ہیں ، پھر نوبت یہاں تک آتی ہے کہ عادت ہوجانے کی وجہ سے اگر ویسے قرض نہیں ملتا، سودی قرض لینا پڑتا ہے، اس کا جو انجام ہے ہر شخص پر ظاہر ہے کہ دین اور دنیا دونوں کو برباد کرنے والی چیز ہے۔
(الافاضات الیومیہ ۶؍۲۴۸)