یاد رکھو ! یہ ناجائز ہے، اس رقم میں ورثاء کا بھی حق ہے اگر کچھ جمع کرنا ہو تو مرد کو اس کی اطلاع کردو، اور اس سے یہ رقم جمع شدہ اپنے واسطے مرض موت سے پہلے حالت صحت میں ہبہ کرالو، (یعنی اس کو راضی کرکے اپنی ملک میں کرالو) اس طرح کرنے سے یہ رقم تمہاری ملک ہوجائے گی، ورنہ اس میں سب وارثوں کا حق ہے اور تنہا عورت کو اس کا مالک بننا حرام ہے۔
(اسباب الغفلۃ ملحقہ دین و دنیا ص:۴۹۱)
جس میت کا کوئی وارث نہ ہوں اس کا مال کہاں خرچ کیا جائے
سوال ۴۳۰: زید مرگیا اور اس کے ذمہ خالد کا کچھ قرض تھا اور زید کے مرنے سے پہلے خالد مرچکا تھا کچھ مدت کے بعد زید کے ورثاء نے چاہا کہ زید پر جو قرض تھا اس کو اس کے مال سے ادا کردیں ، لیکن جس وقت ادا کرنا چاہا تو خالد کا کوئی وارث نہیں ، اب سوال یہ ہے کہ وہ قرض کا روپیہ کس مصرف میں صرف کیا جائے، کہ زید سے اس کا مواخذہ نہ ہو۔
الجواب: پہلے تو دور اورقریب کے رشتہ داروں کی تحقیق ضروری ہے اوراگر کوئی وارث موجود نہ ہو تو یہ روپیہ ایسے کاموں میں خرچ کرنا چاہئے۔
مساجد کی مرمت و خدمت، تیل بتی، لوٹا بدھنا، ڈول رسی، مؤذن وامام کی تنخواہ، مدارس اسلامیہ میں علماء کی تنخواہ، طلباء کی اعانت، خوراک پوشاک، اور جو لوگ بلا تنخواہ اللہ کے لیے علم دین پڑھا رہے ہیں ۔
(امداد الفتاویٰ ص:۳۴۴)