کیا کھائیں گے، گھر واپس ہوا تو دست شروع ہوگئے، اس نے مولانا سے کہلا بھیجا کہ حضرت دعا کیجئے کہ اچھا ہوجاؤں ، چند روز کے بعد تندرست ہوکر پھر آیا، اور دو روپئے (اس وقت کے ورنہ آج کل کے سو روپئے) حضرت کی خدمت میں پیش کئے، حضرت نے انکار کے بعد اس کے اصرار کی وجہ سے قبول فرمائے، اس نے کہا کہ حضرت یہ تو آپ نے پوچھا ہی نہیں کہ یہ روپئے کیسے ہیں ، حضرت نے فرمایا بتاؤ کیسے ہیں ، اس نے کہا کہ افیون کے ہیں ، حضرت نے پوچھا کہ افیون کے کیسے ؟ اس نے کہا کہ میں دو روپیہ کی ہر مہینہ میں افیون کھاتا تھا جب میں نے افیون چھوڑدی تومیرا نفس بہت خوش ہوا کہ اب روپئے بچیں گے، میں نے کہا کہ میں تیرے لیے نہیں بچاؤں گا میں یہ دو روپئے اپنے پیر کو دوں گا، بہر حال یہ سب نفس کے حیلے حوالے ہیں کہ (عادت کی وجہ سے یہ چیزیں چھوٹتی نہیں ) جب آدمی دل سے ہمت کرتا ہے اور کسی کام کو واقعی چھوڑنے کا پختہ ارادہ کرتا ہے تو حق تعالیٰ ضرور امداد کرتے ہیں بس کوکین وغیرہ بھی ہمت کرکے چھوڑ دو، اسی طرح اور بیہودہ اخراجات (مثلاً پڑیا سگریٹ بیڑی وغیرہ) سب کو چھوڑ دو، پختہ ہمت کرلو، سب چھوٹ جائیں گے۔
(الاستغفار ملحقہ راہ نجات ص:۴۸)
بخل و اسراف یعنی کنجوسی اور فضول خرچی کی تعریف
بخل (کنجوسی) کے معنی ہیں قلب کی تنگی، سو تنگی کی تقسیم ہوسکتی ہے مثلاً کسی نے روپیہ جمع کیا اور خرچ اس لیے نہیں کیا کہ اس سے مقصود بیوی بچوں کی راحت ہے، اس کے پسندیدہ ہونے کا دعویٰ غلط نہیں ہوسکتا۔
عرض کیا گیا کہ اسراف (فضول خرچی) کی حد کیا ہے؟ فرمایا جو شرعی اجازت کے خلاف ہو وہ اسراف ہے خواہ بظاہر نیک ہی کام ہو، مثلاً جس پر