بیوی بچوں کا نفقہ واجب ہو اس کو سارا مال خیرات کردینا اسراف ہے اور کھانے پینے میں وسعت کرنا بشرطیکہ کسی حد شرعی سے تجاوز لازم نہ آئے یہ اسراف میں داخل نہیں ۔ (حسن العزیز ۱؍۶۶)
فضول خرچی واسراف کی حقیقت
اسراف کے معنی یہ ہیں کہ منہی عنہ (کا ارتکاب ہو یعنی جس بات سے منع کیا گیا ہو اس میں خرچ ہو) اور اس میں بھی تھوڑی سی تفصیل ہے۔ بعض دفعہ ایک ہی شئ ایک شخص کے اعتبار سے اسراف ہوسکتی ہے اور دوسرے شخص کے اعتبار سے اسراف نہیں ہوتی، مثلاً ایک شخص کو پچاس روپئے میٹر کا کپڑا پہننے کی وسعت ہے اور ایک شخص کو دس روپئے میٹر کپڑے کی بھی گنجائش نہیں ، اب یہ شخص اگر پچاس روپئے میٹر کا کپڑا خریدے گا تو ضرور قرض دار ہوجائے گا، اب دونوں نے پچاس روپئے میٹر کا کپڑا خریدا تو جس کو گنجائش ہے اس کے لیے تو کچھ حرج نہیں ، نہ اس پر اسراف کا الزام ، اور جس نے قرض لیا وہ بے ضرورت گردن پھنسانے سے گنہگار ہوگا، اور اسراف کرنے والا شمار ہوگا، کیونکہ بلا ضرورت مقروض ہونا گناہ ہے، دیکھئے پچاس روپئے میٹر کا کپڑا خریدنا ایک ہی عمل ہے مگر ایک کے لیے گناہ نہیں دوسرے کے لیے گناہ ہے، بات یہ ہے کہ حقیقت میں تو وہ فعل مباح (یعنی جائز) ہے مگر ایک عارض کی وجہ سے گناہ کا ذریعہ بن گیا۔ اور وہ عارض کیا تھا؟ بلا ضرورت قرض لینا۔ اگریہ اس قدر قیمتی لباس نہ پہنتا تو بے ضرورت قرض کے گناہ میں مبتلا نہ ہوتا، اس لیے اس کے لیے اتنا اچھا اور قیمتی کپڑا پہننا بھی گناہ ہے کیونکہ گناہ کا ذریعہ بھی گناہ ہوتا ہے۔
(الصلاح والاصلاح، حقوق و فرائض ص:۵۲۹)