دیکھا بھی جاتا ہے کہ زیادہ تر پریشانی وبربادی کا سبب یہی ہے کہ خرچ کا انتظام نہیں رکھا جاتا، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو ہاتھ میں ہے وہ ختم ہوجاتاہے پھر وہ قرض لینا شروع کردیتے ہیں جس کے برے نتائج بے شمار ہیں ، جو کہ دنیا میں بھی دیکھے جاتے ہیں اور آخرت میں بھی ہوں گے۔(حیوٰۃ المسلمین ص:۱۸۶)
حلال مال کی قدر کرنا چاہئے
حلال مال کی قدر کرنا چاہئے اس کوبرباد نہ کرے (کیونکہ) مال پاس رہنے سے نفس کو اطمینان رہتا ہے ورنہ پراگندہ روزی پراگندہ دل۔
چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس میں کوئی چیز کام نہ آئے گی سوائے دینار ودرہم کے ۔ (روایت کیا اس کو احمد نے)۔
یعنی جس کے پاس روپیہ ہوگا وہ حرام کمائی سے ، حرص لالچ سے حسد سے، دین فروشی سے، سوال ذلت سے ، مالداروں کے دروازہ پر جانے اور ان کی خوشامد کرنے سے ، ظالموں کے ظلم و ستم کرنے سے اپنے دین و علم کو برباد اور ذلیل کرنے سے مال کی بدولت بچا رہے گا۔
اس لیے ہر شخص کو ہاتھ تھام کر خرچ کرنا چاہئے، فضولیات رسومات میں خرچ نہ کرے گو مباح ہی کیوں نہ ہو، اور ناجائز کاموں میں خرچ کرنا تو صریح حرام ہے۔
بلکہ جس قدر آمدنی ہو اس میں سے جتنا ممکن ہو جمع کرتا رہے، تاکہ محتاجی پیری (بڑھاپا) قحط وسختی (گرانی) کے زمانہ میں کام آئے، اس میں کوئی گناہ نہیں ، اگر اچھی نیت ہے تو ثواب ہوگا جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے : نعم المال الصالح للرجل الصالح (یعنی پاکیزہ مال صالح مرد کے