میں غلطی کی بنیاد یہ ہوئی کہ بہن کے اس کہنے کو کہ میں اپنا حصہ نہیں چاہتی کافی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ کافی نہیں ۔
اس پر شاید یہ سوال ہو کہ پھر کیا کہیں کیا یوں کہہ دے کہ اپنے حصہ سے دستبردار ہوتی ہوں سو یہ بھی کافی نہیں ، کیونکہ یہ ابراء (یعنی معاف کرنا) دیون سے (یعنی قرض سے ہوتا ہے) اعیان سے نہیں یعنی اگر کسی کے ذمہ میرے دس روپئے آتے تھے اور میں نے کہا کہ میں نے یہ روپئے معاف کردئیے تو میرے اس کہنے سے قرض اس کے ذمہ سے ساقط ہوگیا، یہ تو براء ت عن الدین (یعنی قرض سے معافی ہوئی ہے)۔
اور اگر میرا قلمدان رکھا ہے میں نے کہاں جاؤ میں نے تمہیں یہ قلمدان معاف کردیا تو اس کہنے سے نہ وہ میری ملک سے خارج ہوا، نہ آپ اس کے مالک ہوئے، یہاں تو وَہَبْتُ نَحَلْتُ (میں نے ہبہ کیا، ہدیہ دیا) اور اس جیسے الفاظ کی ضرورت ہوگی اور اسی طرح ہبہ کے تمام شرائط کا پایا جانا ضروری ہوگا۔ اس واسطے بہن کے معاف کردینے سے وہ حق وراثت معاف نہیں ہوا، اور نہ بھائی اس کا مالک ہوا، کیونکہ وہ حصہ، حصہ عین ہے، دین (قرض) نہیں ہے۔ اگر واقعی اس کی دینے کی نیت ہو تو اس کو ہبہ کے الفاظ کے ساتھ ہبہ کرنا چاہئے، یا بیع (یعنی باقاعدہ بیچنے کا معاملہ) کرنا چاہئے، اور جو کچھ کرے اس کے شرائط پورے کرنا چاہئے، مثلاً اگر ہبہ کرے تو مسئلہ یہ ہے کہ تقسیم سے پہلے ہبہ صحیح نہیں ، مثلاً ایک جائداد تقسیم کے قابل ہے اور اس میں بہن کا حصہ ہے اور بہن نے تقسیم سے پہلے اپنا حصہ ہبہ کیا (یعنی کسی کو دے دیا) تو یہ ہبہ (دینا) جائز نہیں ، اور اگر تقسیم کے بعد ہبہ ہوا تو قبضہ کی شرط کے ساتھ صحیح ہے۔
الغرض ہبہ صرف کاغذی نہیں ہونا چاہئے حِسّی و حقیقی ہونا چاہئے، کاغذ تو محض تکمیل ہبہ کی سند اور حکایت ہے۔ شرعاً جو تقسیم مطلوب ہے وہ کاغذی نہیں