میں دیر لگے گی، ہاں اگر رات کا رکھا ہوا ہو تو لادو، مولانا نے ماش کی دال اور باسی روٹی لادی، آپ نے رکابی کی دال روٹی پر الٹ کر پلّے میں باندھ لی اور رخصت ہوگئے، حالانکہ آپ رئیس (مالدار) تھے جب رامپور پہنچے تو حکیم ضیاء الدین صاحب سے کہا کہ مولوی رشید احمد بڑے اچھے آدمی ہیں ، حکیم صاحب نے کہا واقعی بڑے بزرگ ہیں ، آپ فرمانے لگے کہ میں تو کہہ رہا ہوں کہ بڑے اچھے آدمی ہیں ، آپ کہتے ہیں کہ بڑے بزرگ ہیں ، میں ان کے بزرگ ہونے کی تعریف نہیں کررہا، میں تو یہ کہہ رہاہوں کہ وہ بڑے اچھے آدمی ہیں ، اگر خود نہیں سمجھتے تو پوچھ ہی لو، انہوں نے کہا اچھا حضرت فرمائیے، آپ نے کہا کہ دیکھو کیسے اچھے آدمی ہیں ، انہوں نے مجھے کھانے کے لیے کہا پھر میرے کہنے سے جو کھانا رکھا ہوا تھا بے تکلف لادیا، میں اس واسطے کہہ رہا ہوں کہ بڑے اچھے آدمی ہیں ۔
افسوس ہے کہ آج ان افعال کو ذلت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ صاحبو! اگر وقت پر باسی روٹی مل جائے وہ پلاؤ ، زردہ اور قورمہ سے اچھی ہے، اکثر ہمارے قصبات کے مالداروں میں بھی سادگی ہے۔
بعض جگہ تو اس قدر تکلف ہوتاہے کہ صبح کو چائے پلائی اس میں اس قدر تکلف کیا کہ بیس روپئے (اس زمانہ میں ) لگ گئے، پھر کھانے میں اتنا بکھیڑا کیا کہ عصر کے وقت کھانا ملا، بھلا ان باتوں سے کیا نفع۔ خوب سمجھ لیجئے کہ دین کے چھوڑنے سے دنیا کی بھی تکلیف ہوتی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ خدا دے تو بُرا کھاؤ، ، بُرا پہنو،نہیں اچھا کھاؤ اچھا پہنو، مگر اپنی حد کے اندررہو۔
(التبلیغ احکام المال ۱۵؍۱۲۳-۱۲۴)