ہیں ، بعض دفعہ تو عورتوں کا یہ کہنا صحیح ہوتا ہے کیونکہ واقعی مردوں کو ان ضرورتوں کا علم پوری طرح نہیں ہوتا۔
اور بعض دفعہ اس اختلاف کا سبب یہ ہوتا ہے کہ مردوں میں قناعت کا مادہ عورتوں سے زیادہ ہے مرد تھوڑے سامان میں بھی گذر کرلیتا ہے اور عورتوں میں قناعت کا مادہ (عموماً) ہے ہی نہیں ، ان کی طبیعت میں بکھیڑا بہت ہے، ان سے تھوڑے سامان میں گذر ہوتا ہی نہیں جب تک سارا گھر سامان سے بھرا بھرا نظر نہ آئے۔
مردوں کے نزدیک تو ضرورت کا درجہ یہ ہے کہ جس کے بغیر تکلیف ہو، سو اتنا سامان تو اکثر متوسط الحال (درمیانی درجہ) کے لوگوں میں بحمداﷲ موجود ہوتا ہی ہے اس لیے مردوں کو اس سے زیادہ کی ضرورت معلوم نہیں ہوتی۔ ہاں اگر خدا وسعت دے تو اس کا بھی مضائقہ نہیں کہ اتنا سامان جمع کرلیا جائے جس سے زیادہ راحت نصیب ہو یہ درجہ مردوں کے نزدیک کما ل کا مرتبہ ہے۔ مگر عورتوں کے نزدیک ضرورت کا درجہ تو کوئی چیز ہی نہیں ۔ مرد جس کو ضرورت کا درجہ سمجھتے ہیں وہ عورتوں کے نزدیک قلت اور تنگی کا درجہ ہے، ان کے نزدیک ضرورت کا درجہ وہ ہے جو حقیقت میں ہوس (وحرص) کا درجہ ہے، اور اس کا منشاء (وسبب) یہ ہے کہ عورتوں میں ناشکری کا مادہ زیادہ ہے، اگر خدا تعالیٰ ان کو ضرورت کے موافق سامان عطا فرمادیں تو یہ اس کو غنیمت نہیں سمجھتیں نہ اس پر خدا کا شکر کرتی ہیں ، بلکہ ناشکری کرتی رہتی ہیں کہ ہائے ہمارے پاس کیا ہے کچھ بھی نہیں ہے، حدیث میں بھی ان کی اس صفت کا ذکر آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ناشکری کا مادہ عورتوں میں زیادہ ہے۔
(حقوق الزوجین ، وعظ الکمال فی الدین للنساء ص:۷۶)