(یعنی ان پر مسلسل اس طرح عمل کرے کہ وہ اس سے کبھی چھوٹنے ہی نہ پائے) اور اس عمل کرنے پر (مسلسل) پُر عزم رہتا ہو، تو وہ شیطان سے اپنے حصے کی گمراہی وصول کرنے والا ہے، پس (جب مندوبات پر اصرار کرنے والے کا یہ حال ہے تو) بدعات یا منکرات پر (اسی طرح) اصرار کرنے والے کا کیا حال ہو گا؟!‘‘۔
(وکذا في مرقاۃ المفاتیح،کتاب الصلاۃ، باب الدعا في التشھد، الفصل الأول، رقم الحدیث:۹۴۶، ۳؍۳۱، رشیدیۃ)
(وکذا في التعلیق الصبیح،کتاب الصلاۃ، باب الدعا في التشھد، الفصل الأول، رقم الحدیث:۹۴۶، ۱؍۵۴۹، رشیدیۃ)
(وکذا في السعایۃ، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ: ۲؍۲۶۳، سھیل اکیدمي)
علامہ عبد الحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ
اب آخر میں ہماری متعلقہ بحث جیسا ہی ایک سوال کا جواب ذکر کیا جاتا ہے، جو ایسی شخصیت کا جاری کردہ ہے، جو دیوبندیت اور بریلویت کے زمانے سے پہلے کی ہے، اور وہ ہے علامہ عبد الحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت۔ ملاحظہ فرمائیں :