’’ این تقبیل را در بعض کتب فقہ مستحب نوشۃ است نہ واجب ونہ سنت، مثل کنز العباد وخزانۃ الروایات، وجامع الرموز وفتاویٰ صوفیہ وغیرہ، مگر در اکثر کتب معتبرہ متداولہ نشان آن نیست، در آن کتب کہ درانہا این مسئلہ مذکور است غیر معتبر اند، چنانکہ جامع الرموزوفتاویٰ صوفیہ وکنز العباد وغیرہ، اینوجہ کہ درین کتب رطب ویابس بلا تنقیح مجتمع است، تفصیل آن در رسالہ من ’’النافع الکبیر لمن یطالع الجامع الصغیر‘‘ موجود است، درین باب فقہاء نقل میکنند آنہا بتحقیق محدثین صحیح نیستند … … … … إلخ‘‘۔ (مجموعۃ الفتاویٰ، کتاب الکراہیۃ:۴؍۳۲۵، رشیدیۃ)
اس عبارت کا مفہوم یہ ہے: ’’اس انگوٹھے چومنے والے مسئلہ کو فقہ کی بعض کتابوں میں مستحب کہا گیا ہے، واجب یا سنت نہیں ، مثلاً: کنز العباد ، خزانۃ الروایات، جامع الرموز اور فتاویٰ صوفیہ وغیرہ (میں یہ مسئلہ مذکور ہے )،مگر اکثر معتبر کتبِ فقہ میں ایسا کوئی مسئلہ مذکور نہیں ہے، اور جن کتب میں یہ مسئلہ موجود ہے ، وہ کتب معتبر نہیں ہیں ، اس لیے کہ ان کتابوں میں ہر رطب ویابس کو اس بات کی تصریح کیے بغیر’’ کہ کون سی بات صحیح ہے اور کون سی نہیں ‘‘، جمع کر دیا گیا ہے، اس بات کی پوری تفصیل میرے رسالے ’’ النافع الکبیر لمن یطالع الجامع الصغیر‘‘ میں موجود ہے، اس انگوٹھا چومنے والے مسئلہ میں