بہت سارے راوی مجہول ہیں (یعنی ان کا تذکرہ ہی کتب اسماء الرجال میں نہیں ملتا)۔
الغرض یہ تو اُن روایت کا حال تھا، جن سے استدلال کیا جاتا ہے۔ اب ایک نظر اُن کتب پر بھی ڈال لینی چاہیے، جن میں سے یہ روایات نقل کی جاتی ہیں ، یا جن کتب میں یہ مسئلہ مذکور ہے۔
روایات کے مأخذ کا بیان
چناں چہ! علامہ شامی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ اورروایات کے مأخذ میں کنز العباد، قہستانی، کتاب الفردوس اور فتاویٰ صوفیہ کا حوالہ دیا ہے،
علامہ طحطاوی رحمہ اللہ نے کتاب الفردوس اور کنز العباد کا حوالہ دیا ہے ،
صاحب تفسیر روح البیان نے اس مسئلہ میں حوالہ قہستانی اور قوت القلوب کا دیا ہے۔
مجموعی طور پر مذکور تمام کتب غیر معتبر ہیں ، ان کتب کے صرف وہ مسائل معتبر شمار ہوں گے، جن کی تائید دوسری معتبر کتب سے ہو جائے۔
’’کنز العباد‘‘ کے بارے میں علامہ لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وکذا’’کنز العباد ‘‘فإنہ مملوئٌ من المسائل الواھیۃ والأحادیث الموضوعۃ، لا عبرۃَ لہ، لا عند الفقہاء ولا عند المحدثین، قال علي القاري فيطبقات الحنفیۃ: ’’علي بن أحمد الغوري………… ولہ