۱۳، ۱۳۳۸ھ، حسنی پریس بریلی میں طبع ہوئی ہے)
(مکمل حوالہ: فتاویٰ رضویہ،کتاب الحظر والاباحۃ،ابر المقال فی استحسان قبلۃ الاجلال: ۲۲؍۶۲،رضا فاؤنڈیشن)
مذکورہ فتویٰ کا خلاصۃ:
مولوی احمد رضا خاں کے نزدیک اذان کے علاوہ فاتحہ خوانی وغیرہ مواقع تقبیلِ ابہامین کا کسی کتاب سے ثبوت نہیں ہے، لہٰذا وہ مانتے ہیں کہ نہ چومناہی زیادہ مناسب ہے۔ اذان کے وقت بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں مانتے اور چومنے کو مسنون اور حدیث کو صحیح کہنے والے کو اور سمجھنے والے کو نیز نہ چومنے والے کو برا ماننے والے کو غلطی پر سمجھتے اور مانتے ہیں ۔ اذان کے وقت چومنے کی احادیث کو ضعیف اور مجروح مانتے ہیں اور شرائطِ ذیل سے چومنے کی اجازت دیتے ہیں :
(۱) مسنون کا عقیدہ نہ رکھے(۲) اس کے متعلق جو حدیث واردہے ، اس کو صحیح نہ سمجھے (۳) نہ چومنے والے کو بُرا نہ جانے وغیرہ،
یہ ہے مسئلہ کی سچی حقیقت! جس کو سنی وہابی بلکہ کفر واسلام کی علامت بنا لی گئی ہے۔ افسوس صد افسوس۔
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرہ خوں کا نہ نکلا۔
فقط واللہ اعلم بالصواب۔
(فتاویٰ رحیمیہ، کتاب السنۃ والبدعۃ، آنحضرت ﷺ کا اسمِ گرامی سنتے وقت انگوٹھا چومنا :۲؍۸۶ -۸۹، دار الاشاعت)
……………………………………