المحتار۔
اور بعض کتب ِ فقہ میں مثلاً: جامع الرموز ، شرح نقایہ، وفتاویٰ صوفیہ، وکنز العباد وشامی حاشیہ درمختار کہ اکثر ان میں مستندات علمائے طائفہ اسماعیلیہ سے ہیں ، وضع ابہامین کو مستحب بھی لکھ دیا۔
فاضل قہستانی شرح مختصر وقایہ میں لکھتے ہیں :
واعلم أنہ یستحب أن یقال عند سماع الأولیٰ من الشھادۃ الأولی’’صلی اللہ علیک یا رسول اللہ‘‘ وعند سماع الثانیۃ منھا ’’قرۃ عیني بک یا رسول اللہ‘‘ ثم قال: ’’اللہم متعني بالسمع والبصر‘‘ بعد وضع ظفر الإبھامین علی العینین، فإنہ ﷺ یکون قائداً لہ إلیٰ الجنۃ، کما في کنز العباد۔ انتھیٰ۔
ردالمحتار حاشیہ درمختار میں اسے نقل کر کے فرماتے ہیں : ’’ونحوہ في الفتاویٰ الصوفیۃ‘‘ پس حق اس میں اس قدر ہے، کہ جو کوئی بامید زیادتی روشنائی بصر مثلاً:از قبیلہ اعمال مشایخ جان کر یا بتوقع فضل ان کتب پر لحاظ اور ترغیب وارد پر نظر رکھ کر بے اعتقاد سنیتِ فعل وصحتِ احادیث وشناعت ترک اسے عمل میں لائے، اس پر بنظر اپنے نفس فعل واعتقاد کے خیر کچھ مؤاخذہ بھی نہیں ، کہ فعل پر حدیث صحیح نہ ہونا اس فعل سے نہی ومنع کو مستلزم نہیں … اور پنچایت (فاتحہ خوانی) کے وقت اس فعل کا ذکر کسی کتاب میں نہیں دیکھا گیااور فقیر کے نزدیک بر بنائے مذہب ارجح واصح غالباً ترک زیادہ انسب والیق ہونا چاہیے۔(ابر المقال فی استحسان قبلۃ الاجلال، ص:۱۲،