ثبت رفعہ إلیٰ الصدیق، فیکفي العمل بہٖ لقولہٖ ﷺ:’’علیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین‘‘، فکان تعقبہ لا معنیٰ لہ إلا الخطاء، إذ لم یصح إسنادہ إلیٰ أبي بکرٍ‘‘۔(المصنوع في معرفۃ الحدیث الموضوع، رقم الحدیث: ۳۰۰، ص: ۱۶۹، ۱۷۰،سعید)
ترجمہ:’’عجیب بات یہ ہے کہ مؤلف ؒ نے (مذکورہ حدیث کے بارے میں ) موضوعات کبریٰ میں علامہ سخاویؒ کا قول نقل کیا (جس سے حدیث کا موضوع ہونا ثابت ہوتا ہے)، اور خود ہی اس (قول ذکر کرنے ) کے بعد اپنا یہ قول (جب اس حدیث کا رفع حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تک صحیح ہو گیا، تو حدیثِ نبوی ﷺ: ’’علیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین‘‘ کی وجہ سے اتنا عمل کے لیے کافی ہے)ذکر کیا ہے، پس اُن کے اپنے بعد والے قول کے کوئی معنیٰ نہیں ہیں ، سوائے اس کے کہ اُن سے خطاء ہو گئی ہے، اس لیے کہ اس حدیث کی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تک بھی سند ثابت نہیں ہے۔
علم ِ حدیث میں مذکورہ روایت کی حیثیت
اور اگر کوئی اس حدیث کو ’’حسن‘‘ یا ’’ضعیف‘‘ مانے(جیسا کہ بعض اہلِ بدعت کا قول ہے :’’ صحیح نہ ہونے سے کسی حدیث کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا، کیوں