کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’’وذکر الجراحي وأطال، ثم قال: ولم یصح في المرفوع من کل ہٰذا شییٔ اھ‘‘ (شامي: ۱؍۲۶۷)
ترجمہ: جراحی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں طویل بحث کے بعد لکھا ہے کہ اس بارے میں کوئی مرفوع حدیث موجود نہیں ، جس سے انگوٹھا چومنے کو مسنون یا مستحب قرار دیا جائے۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم۔حررہ العبد محمود غفر لہ۔
(فتاوی محمودیہ، باب البدعات والرسوم: ۳/۱۵۶، ۱۵۷، ادارہ الفاروق)
اذان میں انگوٹھے چومنا
سوال: اذان میں آنحضرت ﷺ کے نام پر انگوٹھا چومنا مولانا عبد الشکور صاحب نے ’’کنزالعمال‘‘ سے ثابت کیا ہے کہ پہلے مرتبہ حضرت کے نام پر ’’صلی اللہ علیہ علیک یا رسول اللہ‘‘ کہے، یہ صیغے حاضر کے ہیں تو کیا آنحضرت ﷺ کو حاضر تصور کریں ؟ بہار ِ شریعت میں بحوالہ ردالمحتار لکھا ہے کہ جب مؤذن ’’أشھد أن محمدا رسول اللہ‘‘ کہے تو سننے والا درودشریف پڑھے اور مستحب ہے کہ انگوٹھوں کو بوسہ دے کر آنکھوں سے لگائے اور کہے ’’ قرۃ عیني بک یا رسول اللہ، أللھم متعني بالسمع والبصر‘‘ یہ قول مفتیٰ بہٖ ہے یا رد المحتار نے کچھ تنقید کی ہے؟
الجواب حامداً ومصلیاً
اس حدیث کو بحوالہ ’’ فردوس دیلمی‘‘ نقل کر کے تذکرۃ الموضوعات، ص: ۳۴ میں لکھا ہے : ’’لا یصح‘‘ اور ابو العباس متصوف کی سند کو لکھا ہے : ’’فیہ مجاھیل ‘‘،