کے قول سے واضح ہو چکی ہے۔
ثانیاً اس وجہ سے کہ ان حضرات نے جو استحباب کا قول نقل کیا ہے ،وہ آج سے دو صدیاں قبل کیا تھا، عین ممکن ہے کہ اس دور میں بدعتیوں کے ہاں اس مسئلہ میں ایسا غلو نہ ہو، جیسا ہمارے اس موجودہ دور میں ہے، اس لیے انہوں نے استحباب کا حکم لگایا اور بعض نے اسے ہی آگے نقل کر دیا، اور اگر اس دور میں بھی اس مسئلہ میں غلو ہوتا جیسا کہ آج اظہر من الشمس ہے تو یقینا اس مسئلہ میں بھی دوسری بدعات کی طرح بدعت کا حکم لگایا جاتا۔
مستحبات کو ان کے درجے سے بڑھا دینے کا حکم
اور اگر بالفرض اسے مستحب ہونا تسلیم بھی کر لیا جائے تو پھر بھی آج کے دور میں اس پر عمل کرنا جائز نہیں ، کیوں کہ فقہ کا مسلّمہ قاعدہ ہے کہ جب کسی مستحب کام کو اس کے درجہ سے بڑھا دیا جائے تو وہ کام ممنوع ہو جاتا ہے۔
اب ! موجودہ دور میں مذکورہ مسئلہ کے بارے میں غور کر لیا جائے کہ اس مسئلہ کو نہ صرف سنتِ مقصودہ بلکہ اس میں نبی اکرم ﷺ کی خاص تعظیم سمجھی جاتی ہے۔اور ایسا نہ کرنے والے کو بُری نظر سے دیکھا جاتا ہے، نہ کرنے والے کو ملامت اور لعن طعن کی جاتی ہے، اسے حنفیت کا مخالف قرار دیا جاتا ہے، بلکہ اس عمل کو اہل سنت والجماعت کی پہچان سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ ! اگر یہ عمل ایسا ہی اہم اور ضروری ہوتا تو جس طرح اذان جیسا عظیم الشان امر تواتر اور قوی دلائل کے ساتھ کتبِ معتبرہ میں مذکور ہے ، بالکل اسی طرح یہ عمل بھی مذکور ہونا چاہیے تھا، اس لیے کہ یہ عمل بھی