(حاشیۃ ابن عابدین، کتاب الصلاۃ، باب الأذان:۲؍۶۲۸، دار الثقافۃ والتراث، دِمَشق)
اور’’ المقاصد الحسنہ ‘‘کی تعلیقات میں تو واضح لکھا ہے کہ صرف یہی نہیں کہ مجموعہ احادیث میں اس مسئلہ کے بارے میں کوئی صحیح ، مرفوع حدیث نہیں ہے، بلکہ اس عنوان سے متعلق سب مرویات موضوع اور بے سند ہیں ، ملاحظہ ہو:
’’وحکی الخطابي في شرح مختصرۃ خلیل حکایۃ أخریٰ غیر ما ھنا وتوسع في ذٰلک ولا یصح شییٔ من ھذا في المرفوع کما قال المؤلف، بل کلہ مختلق موضوع‘‘۔(المقاصد الحسنۃ، حرف المیم، رقم الحدیث: ۱۰۱۹،ص: ۴۴۰،۴۴۱، دارالکتب العلمیۃ)
ایک ممکنہ اعتراض کا جواب
اور اگر یہ کہا جائے کہ چلو مرفوعاًنہ سہی ، موقوفاً تو بہر حال ثابت ہے ،اور اتنی بات عمل کے لیے کافی ہوتی ہے، جیسا کہ ملا علی قاری ؒ نے ’’الموضوعات الکبریٰ‘‘میں لکھا ہے، ملاحظہ ہو:
’’قلت: وإذا ثبت رفعہ علی الصدیق، فیکفي العمل بہٖ لقولہٖ ﷺ:’’علیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین‘‘۔(الموضوعات الکبریٰ للقاري، حرف