للدہلوي، فارسي،ص: ۱۶۲، سعید۔ ومترجم بالعربیۃ للدکتور محمد أکرم الندوي، بحث فردوس للدیلمی،ص:۱۸۰، دارالغُرب الإسلامي)
ترجمہ: ’’ لیکن ثقہ اور قابل اعتماد نہیں ہیں ، یہ صحیح روایت اور ضعیف روایت کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کرتے، اسی وجہ سے ان کی (مذکورہ ) کتاب موضوع اور بے سند احادیث سے بھری ہوئی ہے۔
مذکورہ کتب سے مسئلہ لینے کا حکم
ان کتب میں مذکور کسی مسئلہ پر عمل کرنے کا کیا حکم ہے؟ اس بارے میں علامہ لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’والحکم في ھٰذہ الکتب الغیر المعتبرۃ أن لا یُؤخَذ منھا ما کان مخالفاً لکتب الطبقۃ الأعلیٰ، ویُتوقَّفُ في ما وُجِد فیھاما لم یدخُل ذالک في أصلٍ شرعي ٍ‘‘۔ (النافع الکبیر علی الجامع الصغیر، مقدمۃ الجامع الصغیر، الفصل الأول في ذکر طبقات الفقہاء والکتب،ص:۲۷، إدارۃ القرآن کراتشي)
ترجمہ: ان غیر معتبر کتابوں (میں سے کسی مسئلہ کے لینے ) کا حکم یہ ہے کہ ان میں مذکور کوئی ایسا حکم جو ان کتابوں سے