مہرجان کے دنوں میں روزہ رکھتے اور عبادت کرتے تھے تو حضرت طلحہ بن عبید اللہ خزاعی رضی اللہ عنہ نے اسے بدعت قرار دے کر فرمایا: ’’بدعۃ من أشد البدع‘‘۔
’’ وخرج ابن وضاح من حدیث أبان بن أبي عباس، قال: لقیت طلحۃ بن عبید اللہ الخزاعي، فقلت لہ: قوم من إخوانک من أھل السنۃ والجماعۃ لا یطعنون علی أحد من المسلمین، یجتمعون في بیت ھٰذا یوما وفي بیت ھٰذا یوماً ویجتمعون یوم النیروز والمھرجان ویصومونھا، وقال طلحۃ: ’’بدعۃ من أشد البدع‘‘۔ (الاعتصام ، ص: ۳۲۵، دار المعرفۃ، بیروت)
یاغیر مسلموں کی طرح بعض لوگوں کا اپنے لیے مخصوص وضع اور رنگ کا لباس مقرر کر لینابدعت ہے، اسی طرح فجر وعصرکے بعد مصافحہ کرنا اور اسے لازم سمجھنا کہ یہ روافض کا طریقہ ہے۔
بدعات کی تردید
قرآن وسنت کی تعلیمات سے جب معلوم ہوا کہ نئے امور بدعت ہیں ، بدعت گم راہی اور جہنم میں داخل ہونے کا ذریعہ ہے ، توحضرات انبیاء کرام کے ورثاء اور جانشین علمائے کرام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ معاشرہ میں ظاہر ہونے والی مروجہ بدعات کی بھر پور تردید کریں اور ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور لوگوں کو ان سے بچنے کی تلقین کریں ، خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں ، اور اس کے برعکس بالفرض