فرمائی ہو۔
حافظ ابن حجرؒ نے مزید فرمایا کہ آخری دو شرطیں ، ابن عبد السلام ؒ اورابن دَقِیق العیدؒ سے منقول ہیں ،اور شرطِ اول پر علامہ علائی ؒ نے علماء کا اتفاق نقل کیا ہے‘‘۔
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں صاحب روح البیان کے قول کی حیثیت بالکلیہ ختم ہو جاتی ہے۔اس لیے کہ مذکورہ شرائط ضعیف حدیث پر عمل کرنے کی ہیں ، نہ کہ موضوع، منقطع یا بے سند حدیث پر عمل کرنے کی۔ اور یہ بات پوری تحقیق سے ثابت ہے کہ یہ روایات موضوع یا بے سند ہیں نہ کہ ضعیف۔
’’قوت القلوب ‘‘کی عبارت سے متعلق وضاحت
البتہ! صاحبِ روح البیان ؒ نے جو بات ’’قوت القلوب ‘‘ کے حوالے سے ذکر کی ہے، اس کے بارے میں عرض یہ ہے کہ ہم نے مذکورہ کتاب میں اپنی بساط بھر کوشش کی کہ صاحبِ روح البیان کی نقل کردہ بات ہمیں مل جائے، لیکن ہم اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے، پوری کتاب میں مظان اور غیرِ مظان دونوں جگہ خوب تلاش کے باوجود ہماری مطلوبہ عبارت ہمیں نہ مل سکی، تاہم ! صاحب ِ قوت القلوب کے صنیع سے معلوم ہوتا ہے، کہ ان کی یہ بات بھی دیگر مباحث کی مثل بغیر سند کے مذکور ہوگی، بشرطِ موجودگی اگر ایسا ہی ہوا تو پھر اس عبارت کا جواب بھی مذکورہ تحریر میں آچکا ہے، اور اگر یہ بات سنداً موجود ہو تو جب وہ بات سامنے لائی جائے گی تو اس کابھی جائزہ لے لیا جائے گا۔