کرنے سے مستغنی کر دیتا ہے‘‘۔
الدکتور نور الدین عتر رحمہ اللہ حافظ صاحب رحمہ اللہ کی اس بات کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس (مطلق حکم)سے مراد وہ احادیث ہیں ، جو صرف انہی کتب میں مذکور ہوں ، ان کے علاوہ کہیں اور مذکور نہ ہوں ، یعنی: یہ حضرات اپنی کتب میں نقل کرنے والی احادیث میں متفرد ہوں ، ملاحظہ ہو:’’مصادِرُ نصَّ العلماء علیٰ أن تفرُّدھا بحدیثٍ أمارۃٌ علیٰ ضُعفہ، قال السیوطيؒ في دیباجۃ کتابہ الجامع الکبیر: ’’کل ما عُزِي لھٰؤلاء الأربعۃ…………إلخ‘‘۔ (منھج النقد في علوم الحدیث، الباب الرابع في علوم الحدیث من حیث القبول أو الرد، الفصل الثاني في أنواع الحدیث المردود، مصادر الحدیث الضعیف، ص: ۲۹۷، ۲۹۸، دارالفکر، بیروت)
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں :’’……… ولکنہ غیر مُتْقِنٍ ولا یُمَیِّزُبین الصحیحِ والسقیمِ، ومِن ثَمَّ امْتَلأَ کتابُہ من الأحادیث الموضوعۃ والواھیۃ‘‘۔ (بستان المحدثین