الواجب معہ یکون ھٰذا حظاً من الشیطان وبدعۃ مذمومۃ‘‘۔ (بذل المجہود،ج:۲،ص: ۱۵۶)
۲: صحاحِ ستہ کی کسی حدیث میں ان کے علاوہ بھی کسی صحیح مرفوع حدیث میں اس کا ثبوت نہیں ہے: ’’وذکر ذلک الجراحي وأطال ثم قال ولم یصح في المرفوع من کل ھٰذا شییٔ‘‘ (شامي،ج:۱، ص: ۲۶۷)۔
۳: کسی امام نے اس کے مستحب ہونے کا قول نہیں کیا۔
۴: ثبوتِ استحباب کے لیے دلیل ِ شرعی ضروری ہے۔ کیوں کہ یہ بھی ایک حکمِ شرعی ہے، بغیر دلیلِ شرعی کے ثابت نہیں ہوگا۔ علامہ شامی ؒ نقل فرماتے ہیں : ’’والمستحب وھو ما ورد بہ دلیل ندب یخصہ کما في التحریر: ج:۱،ص:۹۶‘‘۔ لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ کسی عالم غیر مجتہد نے غیر دلیل کو دلیل سمجھتے ہوئے کسی فعل کو مستحب کہا ہو۔جب تحقیق سے اس دلیل کا غیر معتبر ہونا ثابت ہوجائے گا تو فعل ِ مذکور مستحب ہونا بھی منتفی ہو جائے گا۔
بعض علماء کا اسے مستحب کہنا ہوسکتا ہے کہ استحبابِ لغوی کی قبیل سے ہو، نہ کہ استحباب ِ شرعی کے قبیل سے ہو، کیوں کہ دلیل ِ شرعی مقتضی استحباب موجود نہیں ۔ جیسا کہ آگے مذکور ہوتا ہے۔
۵:علامہ شامیؒ نے جس جگہ یہ نقل کیا ہے، اس مقام پر یہ بھی نقل کیا ہے، ’’لم یصح في المرفوع من کل ھٰذا شییٔ‘‘ (ج:۱، ص: ۲۶۷)، (کہ اس میں کوئی مرفوع صحیح نہیں )۔ یہ خیال نہ کیا جائے کہ اگرچہ اس میں صحیح حدیث نہیں ہے، لیکن