درست فرمایا ہے؟
۳: کیا ائمہ اربعہ میں سے کسی امام نے اس عمل کو جائز فرمایا ہے، اور اس کے مستحب ہونے کا قول کیا ہے؟
۴: بعض علماء اس کو مستحب قرار دیتے ہیں ، کیا حضور علیہ السلام کے کسی قول یا فعل کے ثابت نہ ہونے کی صورت میں کسی عمل کو مستحب کہا جا سکتا ہے؟ کیا یہ بدعت ہے؟
۵: بعض علماء فقۂ حنفی کی مستند کتاب ردالمحتار، شامی کے متعلق فرماتے ہیں کہ انہوں نے اس عمل کو مستحب فرمایا ہے، اسی طرح صاحبِ مقاصدِ حسنہ اور صاحب مسند الفردوس کے متعلق کہتے ہیں ، کیا یہ نسبت صحیح ہے یا غلط؟
الجواب۔۱: قرآن کریم، احادیث صحیحہ ، اجماع امت ، اور ائمہ اربعہ میں سے کسی امام سے اس فعل کا ثبوت نہی۔ اور لوگ اس کو ضروری اور عملاً واجب سمجھتے ہیں ، اس کے تارک پر نکیر کی جاتی ہے، لہٰذا موجودہ زمانہ میں جائز قرار دینا قواعدِ شرعیہ کے خلاف ہے، کسی اجماعی امر ِ مستحب کو بھی درجۂ واجب میں پہنچا دیا جائے تو اس کو ترک کرنا ضروری ہو جاتا ہے، تا کہ عوام الناس کا اعتقاد محفوظ رہے۔
حدیث عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ : ’’لا یجعل أحدکم نصیباً للشیطان من صلاتہ أن لا ینصرف إلا عن یمینہٖ‘‘ کے تحت علماء نے لکھا ہے:
’’وفي ھٰذا الحدیث دلیل علیٰ مَن اعتقد الوجوب في أمر لیس بواجب شرعاً أو عمل معاملۃ