ائمہ اس طرح کی احادیث سے یہ سمجھتے ہیں کہ عمداً نماز چھوڑنے والا آدمی قطعی طور پر مرتد اور کافر ہوجاتا ہے، اور اس کے ساتھ کافروں جیسا سلوک ہی ہوگا، مگر اکثر ائمہ کا خیال ہے کہ نماز چھوڑنا گو ایک کافرانہ اور باغیانہ عمل ہے، جس کا کوئی جواز اسلام میں نہیں ۔
’’لیکن اگر کسی بدبخت نے صرف غفلت سے نماز چھوڑی ہے مگر اس کے دل میں نماز سے انکار اور عقیدہ میں کوئی انحراف نہیں پیدا ہوا ہے، تو اگرچہ وہ دنیاوآخرت میں سخت سے سخت سزا کا مستحق ہے؛ لیکن اسلام سے اور ملت اسلامیہ سے اس کا تعلق بالکل ٹوٹ نہیں گیا ہے، اور اس پر مرتد کے احکام جاری نہیں ہوں گے، ان حضرات کے نزدیک مندرجہ بالا احادیث میں ترک نماز کو جو کفر کہا گیا ہے، اس کا مطلب کافرانہ عمل ہے اور اس گناہ کی انتہائی شدت اور خباثت ظاہر کرنے کے لئے یہ اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے، جس طرح کسی مضر غذا یا دوا کے لئے کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ بالکل زہر ہے‘‘۔ (معارف الحدیث ۳؍۱۱۲)
ایک حدیث میں فرمایا گیا:
مَنْ فَاتَتْہُ صَلاَۃٌ فَکَأَنَّمَا وَتِرَ أَہْلُہٗ وَمَالُہٗ۔ (مسند احمد)
ترجمہ: جس کی کوئی نماز چھوٹ گئی تو گویا اس کے اہل وعیال اور مال ودولت سب لٹ گئے۔
یعنی مال ودولت اور اہل وعیال کو لاحق ہونے والے نقصان کے خسارے سے بڑا خسارہ کسی نماز کے فوت ہوجانے میں ہے اور مال وعیال کو نقصان سے محفوظ رکھنے کا جو خیال واہتمام ہوتا ہے، اس سے کہیں زیادہ اہتمام نماز کو فوت ہونے سے محفوظ رکھنے کا ہونا چاہئے۔
اسی لئے فرمایا گیا:
لَا سَہْمَ فِیْ الْاِسْلَامِ لِمَنْ لاَ صَلاَۃَ لَہٗ۔ (مسند بزار)
ترجمہ: جو نماز نہیں پڑھتا اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ۔
مزید ارشاد ہوا: