نماز عشاء کے بعد بکواس اور فضول گفتگو اور قصہ گوئی سے منع اسی لئے کیا گیا ہے؛ تاکہ فجر کی نماز کے لئے اٹھنا آسان ہو۔ روایات میں آتا ہے کہ:
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَکْرَہُ النَّوْمَ قَبْلَہَا وَالْحَدِیْثَ بَعْدَہَا۔ (بخاری: باب ما یکرہ من السمر بعد العشاء)
ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے پہلے سونے کو اور نماز کے بعد گفتگو کو ناپسند فرماتے تھے۔
ناپسندیدگی کی اصلی وجہ یہ ہے کہ عشاء کے بعد فضول گوئی فجر کی نماز پر اثر انداز ہوتی ہے، اس لئے حکم دیا گیا ہے کہ عشاء کے بعد جلدی سوجایا جائے اور سحر خیزی کی عادت ڈالی جائے، اور فجر کی نماز ادا کی جائے۔
(۱۲) اصلاحِ اخلاق
تمام عبادات کا منشاء اور اصل ہدف تکمیل واصلاحِ اخلاق ہے، اصلاحِ اخلاق کا سب سے اہم ذریعہ یہ ہے کہ نفس وقلب ہمہ وقت بیدار اور اثر قبول کرنے کے لئے آمادہ اور تیار رہیں ، تمام عبادتوں میں صرف نماز ہی ہے جو نفس وقلب کو بیدار رکھ سکتی ہے، زکوٰۃ بھی عبادت ہے مگر وہ ہر ایک پر فرض نہیں ، روزہ سال میں ایک ماہ فرض ہے، اسی طرح زکوٰۃ بھی سال میں ایک بار فرض ہے، حج بھی عمر میں صرف ایک بار فرض ہے۔
اس لئے یہ فرائض نفس کی بیداری کا دائمی ذریعہ نہیں بن سکتے، جب کہ نماز دن بھر میں پانچ بار ادا کرنی ہوتی ہے، طہارت ووضو کا لحاظ واہتمام کرنا پڑتا ہے، پھر حالات بدلتے رہتے ہیں ، کبھی قیام ہے تو کبھی رکوع، کبھی سجدہ ہے تو کبھی قعدہ، تسبیح بھی ہے اور تکبیر بھی، تشہد بھی ہے اور درود بھی، دعا بھی ہے اور تلاوت بھی، نماز کا یہ تنوع وامتیاز نفس میں تدریجاً اثر پذیری کی استعداد پیدا کرتا ہے اور پورے چوبیس گھنٹے وقفہ وقفہ سے نفس کو ہوشیار اور دل کو بیدار کرتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اصلاحِ اخلاق میں اس سے زیادہ مؤثر کوئی اور چیز نہیں ہوسکتی۔