میں موت کو یاد کرتا ہے، تو وہ اپنی نماز کو بہتر طریقہ پر ادا کرتا ہے، اور ایسے شخص کی طرح نماز پڑھو جسے (زندگی میں ) دوسری نماز پڑھنے کا خیال وگمان نہ ہو (یعنی اسے دوسری نماز کا وقت آنے سے پہلے موت کا یقین ہو)
یہی وصیت اللہ کے رسول صلی ا للہ علیہ وسلم نے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمائی تھی:
اِذَا قُمْتَ فِیْ صَلاَ تِکَ فَصَلِّ صَلَاۃَ مُوَدِّعٍ۔ (مسند احمد)
ترجمہ: جب تم نماز میں کھڑے ہو تو رخصت کرنے والے کی نماز کی طرح نماز پڑھو۔
اگر نماز میں موت کو یاد کیا جائے اور ہر نماز زندگی کی آخری نماز سمجھ کر ادا کی جائے، تو اس سے یقینی طور پر خاشعانہ رنگ پیدا ہوگا۔
(۴) آیات واذکار میں تدبر وتفکر
قرآنِ کریم کے نزول کا اہم مقصد تدبر ہے، فرمایا گیا:
کِتَابٌ اَنْزَلْنَاہُ اِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوْا آیَاتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُوْلُوْ الْأَلْبَابِ۔
یہ کتاب ایک بڑی برکت والی کتاب ہے، جو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نازل کی ہے؛ تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل وفکر رکھنے والے اس سے سبق لیں ۔
اور تدبر اسی وقت ہوسکتا ہے، جب الفاظ کے معانی ومفاہیم کا علم ہو، پھر تدبر کے نتیجہ میں خشیت، اثر پذیری اور خوف پیدا ہوتا ہے، فرمایا گیا:
وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِایَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْہَا صُمًّا وَعُمْیَاناً۔ (الفرقان: ۷۳)