خشوع کو غارت کردیتی ہے۔
(۷) اچھی آواز میں تلاوت
اچھی آواز، انداز اور لہجہ واسلوب میں تلاوت سے بھی خشوع پیدا ہوتا ہے۔ حدیث شریف میں فرمایا گیا:
زَیِّنُوْا الْقُرْاٰنَ بِأَصْوَاتِکُمْ، فَاِنَّ الصَّوْتَ الْحَسَنَ یَزِیْدُ الْقُرْاٰنَ حُسْناً۔ (اخرجہ الحاکم ۱؍۵۷۵)
ترجمہ: قرآنِ کریم کو اپنی آوازوں سے زینت دو، اچھی آواز قرآن کا حسن بڑھادیتی ہے۔
خوش آوازی کا مطلب یہ نہیں کہ بیجا مد کیا جائے، بے ضرورت لحن ہو اور بلاوجہ کھینچا جائے؛ بلکہ اصول تجوید کے مطابق قرآنِ کریم کی تلاوت ہو، تلاوت کے وقت خشیت الٰہی اور عظمت وجلال کلام الٰہی کی کیفیت پائی جائے۔ حدیث شریف میں آیا ہے:
اِنَّ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ صَوْتاً بِالْقُرْاٰنِ الَّذِیْ اِذَا سَمِعْتُمُوْہُ یَقْرَأُ حَسِبْتُمُوْہُ یَخْشیٰ اللّٰہَ۔ (ابن ماجۃ)
ترجمہ: قرآنِ کریم کی تلاوت میں سب سے زیادہ خوش آواز وہ ہے جس کو تلاوت کرتے ہوئے جب تم سنو تو یہ سمجھو کہ یہ اللہ سے ڈر رہا ہے اور اس پر خشیت طاری ہے۔
(۸) اللہ سے ہم کلامی کا تصور
ایک حدیث شریف میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: قَسَمْتُ الصَّلوٰۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ: فَاِذَا قَالَ الْعَبْدُ: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ