ترجمہ: خدایا میں اس دل سے پناہ کا خواہاں ہوں جو خشوع کی دولت سے محروم ہو۔
بعض اسلاف کا یہ مقولہ مشہور ہے کہ: ’’نماز کی مثال ایک باندی کی سی ہے، جسے بادشاہ کی خدمت میں نذرانے کے طور پر پیش کیا جائے، اب ظاہر ہے کہ جو بادشاہ کو معذور، بیمار، اندھی، لنگڑی، بدشکل باندی ہدیہ کرے، تو اس میں اور مردہ باندی دینے والے میں کیا فرق ہوگا؟ ایسے ہی نماز بندے کی طرف سے احکم الحاکمین کی خدمت میں نذرانہ ہے، اللہ وہی نماز قبول کرتا ہے جو پاکیزہ، حقیقی، باروح، خشوع کے سانچے میں ڈھلی ہوئی اور حضور قلب کی دولت سے مالا مال ہو، رسمی، سطحی، بے روح، خشوع سے محروم اور ریاکارانہ نماز کو اللہ رد کردیتا ہے۔ (مدارج السالکین ۱؍۵۲۶)
حرفِ آخر
علامہ سید سلیمان ندوی رقم طراز ہیں :
ان تمام امور کو سامنے رکھنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نماز اسلام کا اولین شعار، اور اس کے مذہبی واجتماعی وتمدنی وسیاسی واخلاقی مقاصد کی آئینہ دار ہے، اسی کی شیرازہ بندی سے مسلمانوں کا شیرازہ بندھا اور اسی کی گرہ کھلنے سے اس کی نظم وجماعت کی ہر گرہ کھل گئی ہے، مسجد مسلمانوں کے قومی اجتماع کا مرکز اور نماز اس مرکزی اجتماع کی ضروری رسم تھی، جب مسلمان زندہ تھے ان کے ہر اجتماع کا افتتاح نماز سے ہوتا تھا، ان کی ہر چیز اسی کے تابع اور اسی کے زیر نظر ہوتی تھی، ان کی نماز کا گھر ہی ان کا دار الامارہ تھا، وہی دارالشوریٰ تھا، وہی بیت المال تھا، وہی صیغۂ جنگ کا دفتر تھا، وہی درس گاہ اور وہی معبد تھا۔ نماز کو چھوڑکر مسلمان صرف قالبِ بے جان، شرابِ بے نشہ اور گلِ بے رنگ وبو ہوکر رہ جاتا ہے، اور رفتہ رفتہ اسلامی جماعت کا ایک ایک شعار اور ایک ایک امتیازی خصوصیت اس سے رخصت ہوجاتی ہے، اسی لئے نماز ا سلام کا اولین شعار ہے اور اسی کی زندگی سے اسلام کی زندگی ہے‘‘۔ (سیرت النبیؐ ۵؍۱۰۵)
mlm