(۱۳) مودّت ومحبت
ایک محلہ اور علاقہ اور آس پاس کے مسلمان نماز کی ادائیگی کے لئے روز وشب میں پانچ بار اکٹھے ہوتے ہیں ، تو ان میں باہم مودت ومحبت پیدا ہوتی ہے، دوری، بیزاری، بے گانگی اور اجنبیت ختم ہوتی ہے، باہم تعلق خاطر پیدا ہوتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے تعاون اور مدد کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم کہتا ہے:
وَاتَّقُوْہُ وَاَقِیْمُوْا الصَّلاَۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعاً۔ (الروم: ۳۱-۳۲)
ترجمہ: اللہ سے ڈرو اور نماز قائم کرو، اور مشرکین میں سے نہ ہوجاؤ، جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنالیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں ۔
(۱۴) مواسات وغم خواری
نماز کے لئے مسجد میں اجتماع کی ایک برکت یہ بھی ہے کہ اس سے باہمی ہمدردی وغم گساری کے جذبات پروان چڑھتے ہیں ، جب امیر وغریب، محتاج وغنی، مال دار ونادار ہر طرح کے افراد یکجا ہوں گے اور اللہ کے نام پر اکٹھا ہوں گے، توامراء، اثریاء اور اغنیاء کے دلوں میں غرباء وناداروں کی اعانت وامداد کا جذبہ پیدا ہوگا، آغاز اسلام میں اصحابِ صفہ سب سے زیادہ مدد وامداد کے مستحق تھے اور مسجد ہی میں رہا کرتے تھے، صحابہ نماز میں حاضر ہوتے تھے، تو اصحابِ صفہ کو دیکھ کر ان کے دلوں میں مدد کا جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ اکثر صحابہ کھجور کے خوشے اصحابِ صفہ کو لے جاکر دیا کرتے تھے، کبھی گھروں میں بلاکر کھانا بھی کھلاتے تھے، خیرات وصدقات اور اعانت باہمی کا سب سے بڑا ذریعہ اس وقت سے لے کر اب تک یہی مساجد ہیں ، اسی لئے قرآنِ کریم میں نماز کے ساتھ زکوٰۃ اورانفاق فی سبیل اللہ کا ذکر متعدد مقامات پر ملتا ہے۔
(۱۵) اجتماعیت ووحدت
دیگر مذاہب میں اجتماعیت کے مقصد سے جو رسوم، تیوہار اور کام متعین کئے گئے ہیں ،