الْخَاشِعِیْنَ۔ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُلاقُوْا رَبِّہِمْ وَاَنَّہُمْ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ (البقرۃ: ۴۵)
ترجمہ: اور صبر ونماز کے ذریعہ سے مدد لیا کرو، بلاشبہ نماز گراں ہے مگر خشوع رکھنے والوں پر گراں نہیں ہے، جنہیں اس کا خیال رہتا ہے کہ اپنے پروردگار سے ملنا بھی ہے اور اس کی طرف لوٹنا بھی ہے۔
واضح ہوا کہ نماز نفس پر بہت بھاری ہے، وہی افراد یہ بار گراں اٹھاسکتے ہیں جن کے دلوں میں خوفِ الٰہی ہو اور جن کے دل آخرت کی بازپرس کے ڈر سے ہمہ وقت خدا کے آگے جھکے رہیں ۔ اس آیت میں خشوع قلب کے دو خاص اثرات کا بیان ہے، مفسر قرآن مولانا عبدالماجد دریابادیؒ لکھتے ہیں :
’’پہلا اثر یہ ہے کہ خاشعین کو اس کا استحضار رہتا ہے کہ یہ عبادتیں رائگاں جانے والی نہیں ، اپنے شفیق وکریم پروردگار کے حضور میں بہرحال حاضر ہونا ہے، اس وقت یہ ساری محنت وصول ہوجائے گی، اور استحقاق سے کہیں بڑھ کر اجر ملے گا، شوق نماز اس مراقبہ سے پیدا ہوجانا یقینی ہے۔ دوسرا اثر خشوع قلب کا یہ ہے کہ خاشعین کے دل میں یہ بات جم جاتی ہے کہ آخر تو واپسی مالک حقیقی کے روبرو ہوگی، حساب جس طرح ہر عمل کا ہوگا، اسی طرح ترکِ عمل کا بھی ہوگا، ترکِ نماز کی عادت اس مراقبہ سے خود بخود ترک ہوجائے گی، عمل میں ساری سہولتیں یقین ہی کی مضبوطی اور قوت سے پیدا ہوتی ہیں ، اور یقین کے ایجابی وسلبی دونوں پہلو یہاں بیان میں آگئے، نفسیاتِ جدید میں محرکِ عمل دو ہی چیزیں مانی گئی ہیں ، ترغیب وترہیب، ترغیب کا جزو : {أَنَّہُمْ مُلاقُوْا رَبَّہُمْ} میں جزا واجر کے استحضار سے آگیا، اور ترہیب کا جزو: {وَأَنَّہُمْ إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ} میں مراقبۂ مواخذہ سے آگیا‘‘۔ (تفسیر ماجدی ۱؍۱۲۰)
خشوع کا شرعی حکم
امام غزالیؒ اور مفسر قرطبیؒ کی رائے یہ ہے کہ نماز میں خشوع فرض وشرط ہے، اگر پوری نماز بغیر خشوع گذر جائے تو نماز ادا ہی نہ ہوگی۔
دیگر علماء کی رائے یہ ہے کہ بلاشبہ خشوع نماز کی روح ہے، مگر اسے رکن کا درجہ نہیں دیا جاسکتا کہ اس کے بغیر نماز واجب الاعادہ ہو۔