مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ۔ (الاعراف: ۲۹)
ترجمہ: ہر مسجد کے پاس اپنے رخ اسی اللہ کی طرف کرو اور اطاعت کو اسی کے لئے خاص کرتے ہوئے اسی کو پکارو۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ نماز کے اصل مقصود پر دل کو پوری طرح جمایا جائے یعنی خشوع وخضوع اختیار کیا جائے، غفلت کے ساتھ نماز ادا نہ کی جائے۔ تیسری حقیقت یہ ہے کہ نماز بالکل اسی طریقہ پر ادا کی جائے جس طریقہ پر ادائیگی کا اللہ نے حکم دیا ہے، تعدیل ارکان اور صفوں کو سیدھا کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ چوتھی حقیقت اوقاتِ نماز کی مکمل پابندی اور نگرانی ہے۔ پانچویں حقیقت نماز پر قائم ودائم رہنا ہے، جس کا ذکر یوں بھی آیا ہے:
وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلیٰ صَلاَ تِہِمْ دَآئِمُوْنَ۔ (المعارج: ۲۳)
ترجمہ: وہ اپنی نمازوں پر مداومت کرتے ہیں ۔
(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: تدبر قرآن ۱؍۹۱-۹۲-۹۳)
دوسرا ادب:
قنوت
قرآنِ کریم حکم دیتا ہے:
وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ۔ (البقرۃ: ۲۳۸)
ترجمہ: اللہ کے سامنے عاجزوں کی طرح کھڑے رہا کرو۔
قنوت کا لفظ بے حد جامع ہے، خاموشی، بندگی، دیر تک قیام، عبادت، عاجزی، ادب ونیاز، دعا مانگنا تمام معانی میں اس کا استعمال ہوتا ہے، اور نماز ان تمام معانی کو محیط ہے۔ نماز میں ذکر وقراء ت، تسبیح واستغفار، سلام وتشہد کے سوا تمام انسانی ضرورتوں اور باتوں سے خاموشی ہوتی ہے، صحابہ کے بیان کے مطابق پہلے نماز میں گفتگو جائز تھی، اس آیت کے بعد