ہیں ، صحابہ کرام کا یہ وصف کہ: ’’وہ نمازوں پر مداومت کرتے تھے‘‘، قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر مذکور ہے؛ بلکہ تمام اعمال میں مداومت مطلوب شرعی ہے۔ حدیث میں آیا ہے:
اَحَبُّ الْاَعْمَالِ اِلیَ اللّٰہِ اَدْوَمُہٗ وَاِنْ قَلَّ۔
(ابوداؤد: باب ما یؤمر بہ من القصد فی الصلاۃ)
ترجمہ: سب سے محبوب عمل اللہ کے نزدیک وہ ہے جس پر مداومت کی جائے اگرچہ وہ کم ہو۔
(۱۸) نظم جماعت
نظم جماعت کے بغیر قوم زندہ نہیں رہ سکتی، یہ نظم نہ ہو تو شیرازہ بکھر جاتا ہے اور زوال آجاتا ہے، نماز باجماعت کا اسلامی نظام اسی نظم کی نمائندگی کرتا ہے، نبوت کی تعلیمات میں ہے کہ مسلمانوں کا صف بہ صف، شانے سے شانہ ملاکر کھڑے ہونا اور ایک ساتھ قیام وقعود اور رکوع وسجود میں مشغول ہونا ان کی قومی واجتماعی زندگی کا نمونہ ہے۔ نماز کی صحت نظام جماعت کی صحت پر موقوف ہے، اسی طرح پوری قوم کی زندگی باہمی اجتماعیت اور تعاون پر موقوف ہے، صفوں کی درستگی پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکیدِ مسلسل کا راز یہی تھا، بار بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:
وَاللّٰہُ لَتُقِیْمُنَّ صُفُوْفَکُمْ اَوْ لَیُخَالِفَنَّ اللّٰہُ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ۔
(ابوداؤد شریف: باب تسویۃ الصفوف)
ترجمہ: بخدا تم ضرور صفیں سیدھی کرو، ورنہ اللہ تمہارے دلوں کے درمیان مخالفت پیدا کردے گا۔
یعنی صفوں کی درستگی دلوں کو متحد رکھتی ہے، اور صفوں کی کجی سے عداوت، بغض اور اختلاف پیدا ہوتا ہے۔
(۱۹) مساوات
اسلام کا نماز باجماعت کا نظام مساوات اور برابری کا سب سے نمایاں مظہر اور نمونہ