پروردگار کو اسی طرح دیکھوگے جیسے تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اور پروردگار کو دیکھنے میں تم کوئی پریشانی اور رکاوٹ محسوس نہیں کروگے، تو اگر تم سے ہوسکے تو طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب سے پہلے ادا کی جانے والی نمازوں (فجر وعصر) کو نہ چھوڑو، تو یقینا ایسا کرو۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی:
وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِہَا۔
ترجمہ: آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب سے پہلے اپنے رب کی تسبیح وتحمید بیان کیجئے (نماز ادا کیجئے)
اس حدیث میں فجر وعصر کی تخصیص کی وجہ یا تو یہ ہے کہ فجر آرام وغفلت کا وقت ہوتا ہے اور عصر مشاغل دنیوی کا وقت ہوتا ہے، جو ان دونوں نمازوں کا اہتمام کرے گا وہ دیگر نمازوں کا بطور خاص اہتمام کرے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جنت میں رؤیت باری انہیں دو وقتوں میں ہوگی، اس حدیث میں دیدارِ الٰہی کی بشارت کے ساتھ نمازوں کی تاکید کا منشاء یہی ہے کہ نمازیں ہی انسان میں رؤیت باری کی صلاحیت واستعداد پیدا کرستی ہیں ۔
(۲) نماز رحمت ومحبتِ الٰہی کا وسیلہ ہے
نماز کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ وہ انسان کو اللہ کا محبوب بنادیتی ہے اور رحمتِ الٰہی کو متوجہ کردیتی ہے۔ حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں رات کا وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے در پر گذار کرتا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے لئے پانی اور دیگر ضرورت کی اشیاء آپـ کو لاکر دیا کرتا تھا، تو آپ نے مجھ سے ایک بار فرمایا کہ مانگو کیا مانگتے ہو؟ میں نے عرض کیا:
أَسْأَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِیْ الْجَنَّۃِ۔
ترجمہ: میں جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت کا خواہاں اور