نماز چھوڑنے کا جرم اور نقصان
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی پابندی کے بڑے تاکیدی احکام ارشاد فرمائے ہیں اور نماز چھوڑنے پر سخت وعیدوں اور سزاؤں کا ذکر فرمایا ہے۔ کہیں فرمایا ہے:
بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلاَۃِ۔ (صحیح مسلم)
ترجمہ: آدمی کے درمیان اور کفر کے درمیان حد فاصل نماز ہے۔
کہیں فرمایا:
اَلْعَہْدُ الَّذِیْ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ اَلصَّلاَۃُ، فَمَنْ تَرَکَہَا فَقَدْ کَفَرَ۔ (ترمذی شریف)
ترجمہ: ہمارے اور منافقین کے درمیان معاہدہ نماز کا ہے، جو نماز چھوڑے وہ کافر ہوا۔
معلوم ہوا کہ نماز انسان کے ایمان کی دلیل ہے، اور جان بوجھ کر نماز چھوڑنا انسان کو کفر کی سرحد میں پہنچانے والا عمل ہے، زمانۂ رسالت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر منافقین کے نفاق کے آشکارا ہونے کے باوجود منافقین کو جو جانی ومالی تحفظ اور معاشرتی وتمدنی حق حاصل تھا وہ ان کے نماز میں -ظاہری طور ہی سے سہی - شریک ہونے کی بنیاد پر تھا، اسی لئے پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ منافقین اگر نماز ترک کرنے لگیں ، تو ان کا کفر آشکارا ہوجائے گا اور وہ کسی مراعات کے مستحق نہ رہیں گے؛ بلکہ ان کے ساتھ کافروں جیسا سلوک کیا جائے گا۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی