ایک بار درست کرو۔
جائے سجدہ میں کنکریاں ہوں تو انہیں ایک دو بار درست کیا جاسکتا ہے، باربار انہیں چھونا ممنوع ہے؛ کیوں کہ یہ عمل کثیر ہے، جو نماز کو فاسد کردیتا ہے۔ نیز اس سے خشوع جاتا رہتا ہے اور دل کی یکسوئی ختم ہوجاتی ہے۔
اسی حکم میں بے ضرورت ناک، داڑھی اور پیشانی وغیرہ چھونا ہے؛ کیوں کہ اصل مشغولیت نماز میں ہونی چاہئے، دوسری چیزوں کی طرف توجہ نہ ہونی چاہئے۔ ارشاد نبوی ہے:
اِنَّ فِیْ الصَّلَاۃِ شُغْلاً۔ (فتح الباری ۳؍۷۲)
ترجمہ: نماز میں مکمل مشغولیت ہے۔
(۲۷) بہت زور سے قرأت نہ کرنا
حدیث نبوی ہے:
اَلاَ اِنَّ کُلَّکُمْ مُنَاجٍ رَبَّہٗ، فَلاَ یُؤْذِیَنَّ بَعْضُکُمْ بَعْضاً، وَلَا یَرْفَعْ بَعْضُکُمْ عَلیٰ بَعْضٍ فِیْ الْقِرَائَ ۃِ۔ (ابوداؤد شریف)
ترجمہ: سنو! تم میں سے ہر ایک (نماز میں ) اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے، تو کوئی دوسرے کو ہرگز تکلیف نہ پہنچائے، اور بہت بلند آواز سے قرأت نہ کرے (کہ دوسرے کو دشواری اور اذیت ہو، اور اس کا خشوع متأثر ہو)
(۲۸) التفات نہ کرنا
التفات کے معنی متوجہ ہونے کے ہیں ، اس کی دو قسمیں ہیں : (۱) نماز کے دوران دل کا غیر اللہ کی طرف متوجہ ہونا (۲) نگاہ کا دوسری طرف متوجہ ہونا، یہ دونوں قسمیں ممنوع ہیں ۔ حدیث شریف میں آیا ہے:
لَا یَزَالُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ مُقْبِلاً عَلیَ الْعَبْدِ وَہُوَ فِیْ صَلَاتِہٖ