تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جایا گیا تو اس واقعہ کے تذکرہ میں قرآنِ کریم نے ’’عبد‘‘ ہی کا لفظ ذکر فرمایا:
سُبْحَانَ الَّذِیْٓ اَسْریٰ بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلیَ الْمَسْجِدِ الْاَقْصیٰ الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ۔ (الاسراء: ۱)
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جو راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی بابرکت سرزمین تک لے گئی۔
پھر اسی سفر معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’سدرۃ المنتہی‘‘ تک پہنچنے کا ذکر ہوا، توفرمایا گیا:
فَاَوْحٰی اِلیٰ عَبْدِہٖ مَآ اَوْحیٰ۔ (النجم: ۱۰)
ترجمہ: پھر اللہ نے اپنے بندے کو جو پیام دینا تھا دیا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کا سب سے بڑا انعام قرآنِ کریم ہے، اس کو نازل کرنے کا تذکرہ جابجا ہوا ہے اور سبھی مقامات پر ’’عبد‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ فرمایا گیا:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلیٰ عَبْدِہِ الْکِتَابَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجاً۔ (الکہف: ۱)
ترجمہ: تمام تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی۔
مزید ارشاد ہوا:
تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلیٰ عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْراً۔ (الفرقان: ۱)
ترجمہ: نہایت بابرکت ہے وہ ذات جس نے قرآن اپنے بندے