بھی جس کتاب کو لئے پھرتے ہیں۔ اس میں انجیل (New Testament) کے ساتھ ساتھ عہد نامہ عتیق (Old Testament) کے نام سے بنی اسرائیل کے انبیاء پر نازل ہونے والے تمام صحیفے شامل ہیں۔ گویا عیسائی تورات، زبور اور تمام صحیفوں کو بھی مانتے ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام نبیوں اور رسولوں کو بھی مانتے ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ دو علیحدہ علیحدہ امتیں ہیں۔ یہ فرق کیوں واقع ہوا؟ صرف اس لئے کہ یہ یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا انکار کیا اور عیسائیوں نے اس کو مانا تو بنی اسرائیل میں تفریق ہوگئی۔ اب یہ دو بالکل جدا امتیں ہوگئیں۔ یہود کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی اور رسول ماننے والے دائرہ ایمان سے خارج ہو کر کافر ہوگئے اور عیسائیوں کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انکار کی وجہ سے یہود کافر قرارپائے۔ مزید غور کیجئے کہ ہمارے اور عیسائیوں کے مابین فرق کیا ہے؟ یہاں میری مراد ان لوگوں سے ہے۔ جو حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا نبی اور رسول مانتے ہیں اور جو حقیقتاً حضرت مسیح علیہ السلام کے متبع ہوں۔ ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں۔ لیکن یہ متبعین حضرت مسیح علیہ السلام ہمارے نبی سید المرسلین، خاتم النبیینﷺ کو نہیں مانتے۔ لہٰذا ہمارے نزدیک وہ کافر اور ان کے نزدیک ہم کافر، گویا یہ وہ منطقی نتیجہ ہے۔ جس تک خود قادیانیوں نے اس مسئلے کو پہنچایا ہے۔ جب وہ ایک نئی نبوت پر ایمان کے مدعی ہیں تو ان کے نزدیک اس نبوت کا انکار کرنے والے کافر اور ہمارے نزدیک اس نبوت کو ماننے والے کافر۔
اس حقیقت کو بھی اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ نئی نبوت کا کھڑاک مول لیاگیا؟ حقیقت یہ ہے کہ نبوت کی بنیاد پر جو تنظیم قائم ہوتی ہے اس سے زیادہ مضبوط تنظیم کا آپ تصور ہی نہیں کرسکتے۔ جس کسی نے کسی کو نبی مان لیا اس نے گویاہر اعتبار سے اپنے آپ کو اس نبی کی کامل فرمانبرداری میں دے دیا اور خود کو بالکلیہ (Surrender) کر دیا اور اب اس نبی کے مقابلے میں اس کا فکر اس کی عقل اور اس کی رائے سب معطل ہو جائیں گے۔ کوئی شخص جب ظلی طور پر بروزی طور پر یا کسی اور اعتبار سے خود کو ایک مرتبہ نبی منوالے تو اب وہ ماننے والے کے لئے امام معصوم بھی ہوگیا۔ واجب الاطاعت بھی ہوگیا۔ اس کی رائے سے اختلاف اور اس کے حکم سے انحراف کفر ہو جائے گا۔ حتیٰ کہ اس کے خلاف دل میں کدورت کے جذبات رکھنا بھی کفر ہو جائے گا۔ پس ایسے شخص کے گرد جو تنظیم بنے گی۔ اس سے زیادہ مضبوط تنظیم کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایسی تنظیم کے علاوہ جو دوسری تنظیمیں ہوں گی ان کے صدر سے، امیرسے، سربراہ سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں۔ آپ ان کے خلاف سوء ظن میں بھی مبتلا ہوسکتے ہیں۔ ان کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے پیش بھی کر سکتے ہیں اور اس پر عمل بھی کر سکتے ہیں۔ چونکہ یہاں معاملہ ایمان وکفر کا نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے برعکس جہاں کسی کو نبی مان لیا گیا ہو۔ وہاں ان تمام امکانات کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہ امر واقعہ ہے کہ اس برصغیر میں قادیانیوں کی تنظیم سے بہتر اور مضبوط کوئی تنظیم نہیں ہے اور اس کا سبب یہی نبوت کا تصور ہے۔ یہ فائدہ نبوت کے دعویٰ کے بغیر حاصل ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔
پھر انہوں نے نبوت کے لازمی اور منطقی نتیجہ کو خود ہی لوگوں کے سامنے واضح کر کے پیش کر دیا۔ عامۃ المسلمین سے ان کی مساجد علیحدہ، نمازیں علیحدہ یہاں تک کہ وہ ہمارے جنازے میں شرکت نہیں کریں گے۔ حدیہ ہے کہ وہ ہمارے بچوں کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہوں گے۱؎۔ یہ بات باقاعدہ سوال وجواب کی صورت میں ان کے لٹریچر میں موجود ہے۔ مرزابشیرالدین محمود سے پوچھا گیا کہ بچے تو معصوم ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر غیراحمدی بچوں کے جنازہ کی نماز میں شرکت کر لی جائے تو کیا ہرج ہے؟ جواب دیاگیا کہ کیا آپ عیسائیوں کے بچوں کے نماز جنازہ میں شرکت کرسکتے ہیں؟ اسی طرح انہوں نے کسی غیراحمدی لڑکے سے احمدی لڑکی کا نکاح ناجائز اور غیراحمدی کی لڑکی سے احمدی کا نکاح جائز قرار دیا۔ دلیل یہ دی گئی کہ اہل کتاب کی لڑکیوں سے نکاح جائز۔ لیکن ان کولڑکی دینا ناجائز ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اس معاملہ کو منطقی انتہاء تک تو قادیانی خود پہنچائیں۔ اس کے جملہ مضمرات کو کھول کر وہ خود واضح کریں اور اس کے بعد اس کا جو عملی نتیجہ نکلنا چاہئے۔ یعنی یہ کہ ان کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے تو یہ اس پر واویلا کریں۔ اس میں آخر کیا معقولیت ہے؟ خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ اعتقادی طور پر وہ اپنے آپ کو خود ہی ایک علیحدہ امت قرار دے چکے ہیں۔ لیکن وہ اس کے مقدرات کو اس لئے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ اس طرح ان کے توسیع پسند عزائم میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ امت مسلمہ میں شامل رہ کر وہ جس طرح ہر قسم کے مادی فوائد سے متمتع ہورہے ہیں۔ اس میں خلل واقع ہوتا ہے۔ غیرمسلم اقلیت ہونے کے باعث وہ حکومت کے تمام کلیدی مناصب سے محروم کر دیئے جائیں گے۔ نیز حکومت کے دفاتر اور محکمہ جات کی ملازمتوں میں تناسب تعداد کے لحاظ سے ان کا کوٹا مقرر ہو جائے گا۔ تبلیغ اسلام کے نام سے جو زرمبادلہ کثیر مقدار میں وہ ہر سال حاصل کرتے ہیں۔ اس پر قدغن لگ جائے گی۔ مسلمانوں میں شامل رہنے کے سبب سے فوج سفارت خانوں اور دیگر محکموں کے اعلیٰ عہدوں
۱؎ مشہور ہے کہ چودھری سرظفر اﷲ خان صاحب نے جو لیاقت علی خان مرحوم کی کابینہ میں اس وقت وزیر امور خارجہ تھے۔ اپنے محسن اور مربی اور بانی پاکستان محمد علی جناح مرحوم کے نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی تھی۔