مذبذب تھے یا جن مسلمانوں کو باہر سے ہموار کرکے لایا گیا تھا۔ انہیں قادیان کا سارا کھیل ہی فراڈ معلوم ہوا۔ رب جی قادیان سے باہر جلسے کرنے لگا۔ اب اس کے جلسوں میں اچھی خاصی حاضری ہونے لگی۔‘‘ (لولاک ۵؍مئی ۱۹۷۵ئ) حضرت امامنا امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کا فتویٰ یہ ہے کہ: ’’جو مسلمان کسی مدعی نبوت سے معجزہ طلب کرے۔ وہ بھی کافر ہے۔ کیونکہ اس کے مطالبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے آنحضرت ﷺ کے خاتم النبیین ہونے میں شک ہے۔
(دیکھو خیرات الحسان مطبوعہ مدینہ منورہ ص۱۱۹، اردو ترجمہ موسوم بہ جوہر البیان ص۱۰۳)
مرزاقادیانی کے ہاں بھی امام بزرگ حضرت فخر الآئمہ امام اعظم ابو حنیفہؓ کی شان بلند مسلم ہے۔ چنانچہ ان کی کئی ایک تحریروں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مرزا قادیانی حضرت امام صاحب کو مانتے ہیں۔ لہٰذا ہم مرزائی حضرات سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ حضرت امام صاحب کے اس حکم پر عمل درآمد کرکے عنداﷲ ماجور ہوں۔
جنگ آزادی ۱۸۵۷ء میں مرزا قادیانی اور ان کے بزرگوں کا طرز عمل
’’۱۸۵۷ء میں جو کچھ فساد ہوا اور اس میں بجز جہلاء اور بدچلن لوگوں کے اور کوئی شائستہ اور نیک بخت مسلمان جو باعلم اور باتمیز تھا ہر گز مفسدہ میں شامل نہیں ہوا۔ بلکہ پنجاب میں بھی غریب غریب مسلمانوں نے سرکار انگریزی کو اپنی طاقت سے زیادہ مدد دی چنانچہ ہمارے والد صاحب مرحوم نے بھی باوصف کم استطاعتی کے اپنے اخلاص اور جوش خیر خواہی سے پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کرکے اور پچاس مضبوط اور لائق سپاہی بہم پہنچا کر سرکار میں بطور مدد کے نذر کی۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۶۹،۶۸، خزائن ج۱ ص۱۳۹،۱۳۸)
۱۸۵۷ء کا جہاد آزادی درحقیقت کسی باضابطہ اسکیم یا لائحہ عمل کے تحت پیش نہیں آیا تھا۔ بلکہ واقعہ یہ تھا کہ ۱۸۵۷ء میں پلاسی کی جنگ کے بعد جب انگریزوں نے ہندوستان پر باضابطہ حکومت کا فیصلہ کرلیا تو اس کے بعد ۱۰۰ سال تک ہندوستانی باشندوں میں اس حکومت کیخلاف نفرت اور بیزاری کے غیر معمولی جذبات پروان چڑھتے رہے۔ ادھر انگریزوں نے ہندوستانی باشندوں کی شجاعت کے پیش نظر انہیں اپنی فوج میں اکثریت دیدی۔ نفرت وبیزاری کی انتہا ان فوجیوں کی بغاوت پر ہوئی‘ جب فوج باغی ہوگئی تو ملک کے عام باشندے جو ۱۰۰ سال سے انگریزی حکومت سے تنگ آئے ہوئے تھے‘ ان کے سامنے بھی ایک نجات کی صورت آگئی۔ چنانچہ ملک کے مختلف جتھے اور جماعتیں بنیں‘ اور ہر علاقے میں اس جہاد کا ایک امیر منتخب ہوا۔ تواریخ سے یہ