تھے۔ ستمبر ۱۹۳۲ء میں بھیرہ (پنجاب) کے مناطرہ میں مبارک احمد قادیانی پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان نے قادیانیوں کی تعداد پچاس لاکھ بیان کی، حال ہی میں عبدالرحیم دردؔ قادیانی مبلغ نے انگلستان میں مسٹر فلبی کے سامنے بیان کیا تھا کہ پنجاب کے مسلمانوں میں غالب اکثریت قادیانیوں کی ہے۔ پنجاب میں قریباً ڈیڑھ کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ اس حساب سے بقول عبدالرحیم گویا ۷۵لاکھ سے بھی زیادہ قادیانی پنجاب میں موجود ہیں۔
(رسالہ شمس الاسلام بھیرہ (پنجاب) ج ۵ نمبر۱۰)
لیکن سرکاری مردم شماری کا خدا بھلا کرے کہ سارا بھانڈا پھوٹ گیا اور بالآخر لاچار ہوکر میاں محمود احمد صاحب خلیفہ قادیانی کو اصلی تعداد تسلیم کرنی پڑی چنانچہ ملاحظہ ہو۔
’’جس وقت ہماری تعداد آج کی تعداد سے بہت کم یعنی سرکاری مردم شماری کی رو سے اٹھارہ سو تھی۔ اس وقت اخبار بدر کے خریداروں کی تعداد ۱۴۰۰ تھی اس وقت سرکاری مردم شماری ۵۶ ہزار ہے اور اگر پہلی نسبت کا لحاظ رکھا جائے۔ تو ہمارے اخبار کے صرف پنجاب میں ۴۰۰۰ سے زائد خریدار ہونے چاہئیں۔‘‘
(خطبہ میاں محمود خلیفہ قادیان مندرجہ اخبار الفضل قادیان ج ۲۲ نمبر ۱۶،۱۵؍ اگست ۱۹۴۳ء
’’ہماری جماعت مردم شماری کی رو سے پنجاب میں ۵۶ ہزار ہے گویہ بالکل غلط ہے۔ بے شک غلط ہے۔ سرکاری رپورٹ ۱۹۳۱ میں مجموعی تعداد ۵۵ ہزار درج ہے جس میں لاہوری جماعت کے کئی ہزار لوگ بھی شامل ہیں۔ (اس طرح میاں محمود احمد کی جماعت کی تعداد پچاس ہزار بھی نہیں رہتی للمؤلف) مگر فرض کرلو یہ تعداد درست ہے اور فرض کرلو کہ باقی تمام ہندوستان میں ہماری جماعت کے بیس ہزار فرد رہتے ہیں۔ تب بھی یہ پچھتر چھہتر ہزار آدمی بن جاتے ہیں۔‘‘
(خطبہ مرزا محمود احمد خلیفہ قادیان مندرجہ اخبار الفضل قادیان ج۲۱ نمبر۵۲، مورخہ ۲۱؍ جون ۱۹۳۴ئ)
گویاپچاس سال کی سعی اور تبلیغ کے بعد تمام ہندوستان میں خود خلیفہ قادیان کے حساب سے قادیانیوں کی فرضی تعداد زیادہ سے زیادہ پچھتر ہزار قرار پاتی ہے کیا مضائقہ ہے پچھتر لاکھ اور پچھتر ہزار میں صرف دو لفظوں کا فرق ہے۔ کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ خود مرزا قادیانی بھی ایسے فرق کو فرق نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم کے دیباچہ میں فرماتے ہیں کہ: ’’پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا۔ مگر پچاس سے پانچ پر اکتفا کیا گیا اور چونکہ پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے۔ اس لئے پانچ حصوں سے وعدہ پورا ہوگیا۔‘‘ (حساب کا کیسا سچا اصول ہے۔ للمؤلف) (دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۷، خزائن ج۲۱ ص۹)