ہے۔ تو ہم اسے دور سے سلام کرتے ہیں۔
کشف کی حالت میں آپ کو ’’انا انزلناہ قریبا من القادیان ‘‘بھی قرآن میں لکھا ہوا نظر آیا۔ (ازالہ اوہام ص۷۳ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۳۸)مگر قرآن اس تحریف سے اب بھی پاک ہے۔
حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی اپنی (تفسیر ص۳۰۱) پر تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’لا تلبسو الحق بالباطل وتکتمون الحق‘‘ کے معنی یہی ہیں کہ قرآن مجید کے معنی حسب خواہش نفس کے لئے جاویں اور سیاق وسباق کا لحاظ نہ رکھا جاوے اور ضمائر کو خلاف قرینہ راجع کیا جاوے جیسا کہ اکثر گمراہ فرقے اسلام میں سے کیا کرتے ہیں۔
مرزا قادیانی بھی قرآن شریف کے معنی کرنے میں ایسا ہی کرتے رہے۔ جیسا مسئلہ حیات مسیح علیہ السلام میں انہوں نے ضمائر کے ایر پھیر سے کام لیا ہے اور آیات قرآنی کے معنی اپنے مفید مطلب نکالنے کی کوشش کی ہے۔ جھوٹ نمبر ۸۵
’’واذا العشار عطلت‘‘ یعنی ایک ایسی نئی سواری نکلے گی جس کی وجہ سے اونٹنیاں بے کار ہوجائیں گی اور ایسا ہی حدیث میں بھی فرمایا گیا تھا ’’لیترکن القلاص فلا یسعی علیہا‘‘ اب دیکھ لو کہ ریل کے اجراء سے یہ پیش گوئی کیسی صاف صاف پوری ہوگئی اور عنقریب جب مکہ تک ریل آئے گی۔‘‘ (ملخص، چشمہ معرفت ص۷۴، خزائن ج۲۳ ص۸۱،۸۲)
’’اس مرض میں تخیل بڑھ جاتا ہے اور مرگی اور ہسٹریا والوں کی طرح مریض کو اپنے جذبات اور خیالات پر قابو نہیں رہتا۔‘‘ (ریویو اگست ۱۹۲۶ء ص۶)
’’نبی میں اجتماع توجہ بالا ارادہ ہوتا ہے جذبات پر قابو ہوتا ہے‘‘
(رسالہ ریویو ص۳۰، بابت ماہ مئی ۱۹۲۷ء از ڈاکٹر شاہ نواز احمدی)
مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر ایم اے کتاب (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۶،۱۷، بروایت نمبر ۱۹) پر لکھتا ہے : ’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹریا کا دورہ بشیر اول کی وفات کے چند دن بعد ہوا تھا۔ رات کو سوتے ہوئے آپ کو اٹھوایا پھر اس کے کچھ عرصہ بعد طبیعت خراب ہوگئی۔ مگر یہ دور ہ خفیف تھا پھر اس کے کچھ عرصہ بعد طبیعت خراب ہوگئی (فرمایا) میں نماز پڑھ رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی کالی چیز میرے سامنے سے اٹھی اور آسمان تک چلی گئی۔ پھر میں چیخ مار کر زمین پر گر گیا اور غشی کی سی حالت ہوگئی۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد سے آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے لگے۔‘‘