۲… (اربعین نمبر۴ ص۲۵، خزائن ج۱۷ ص۴۶۱ حاشیہ) پر لکھتے ہیں: ’’اگر ثابت ہوکہ میری سو پیش گوئی میں سے ایک بھی جھوٹی نکلی تو میں اقرار کروںگا کہ میں کاذب ہوں۔
حضرات! مرزا قادیانی نے جب خود ہی ہمارے سامنے فیصلہ کی ایک آسان سی صورت اور اپنا قوی پہلو رکھ دیا ہے تو ہم مرزا قادیانی کو انہیں کے پسندیدہ اور انہی کے پیش کردہ ’’معیار صداقت‘‘ کے مطابق پرکھ لیتے ہیں۔ تاکہ قادیانی امت پر اتمام حجت ہوسکے۔
۱… مرزا قادیانی نے امرتسر شہر میں ایک عیسائی پادری عبداﷲ آتھم سے مباحثہ کیا جو ۲۲؍مئی ۱۸۹۳ء سے شروع ہو۔ ۵؍جون ۱۸۹۳ء تک ہوتا رہا۔ مرزا قادیانی نے اپنا آخری پرچہ ۵؍جون ۱۸۹۳ء کو دس بج کر تیس منٹ پر دے کر مباحثہ کو یوں ختم کردیا کہ: ’’آج رات مجھ پر کھلا ہے کہ عبداﷲ آتھم آج کی تاریخ سے پندرہ ماہ کے اندر اندر مر جائے گا۔ اگر وہ پندرہ ماہ کے اندر اندر نہ مرے۔‘‘ تو مرزا قادیانی لکھتے ہیں کہ :
۱… ’’مجھے ذلیل کیا جائے۔‘‘
۲… ’’روسیاہ کیا جائے۔‘‘
۳… ’’میرے گلے میں رسا ڈالا جائے۔‘‘
۴… ’’مجھ کو پھانسی دیا جائے۔‘‘
۵… ’’زمین وآسمان ٹل جائیں پر اس (خدا) کی باتیں نہ ٹلیں گی۔‘‘
(دیکھو جنگ مقدس ص۲۱۰،۲۱۱، خزائن ج۶ ص۲۹۳)
حضرات! اب مرزا قادیانی کی تحریر کے مطابق پادری عبداﷲ آتھم کی موت کا آخری دن ۵؍ستمبر ۱۸۹۴ء تھا۔ مرزا قادیانی خود اور آپ کی اہلیہ صاحبہ اور مریدین کا ایک جم غفیر پندرہ ماہ کے دوران نہایت تضرع اور ابتہال سے دعائوں میں مصروف رہے کہ آتھم مر جائے۔ لیکن عبداﷲ آتھم نے پندرہ ماہ کے دوران نہ مرنا تھا نہ مر ا۔ جب آتھم کی میعاد میں ایک دن باقی رہ گیا تو مرزا قادیانی کے دو خاص مرید عبداﷲ سنوری اور حامد علی ساری رات چنے کے دانوں پر وظیفہ پڑھتے رہے۔ پھر یہ دونوں صاحبان وہ دانے اٹھا کر قادیان کے شمال کی جانب ایک غیر آباد کنویں میں ڈال آئے۔ (سیرت المہدی ج ۱ ص۱۷۸، بروایت نمبر۱۶۰)
جس کا مطلب یہ تھا کہ مرزا قادیانی کے چنوں پر وظیفہ پڑھنے سے آتھم مر جائے گا۔ ۵؍ستمبر کو جو کہ مرزا قادیانی کی تحریر کے مطابق آتھم کی زندگی کا آخری دن تھا اس دن بھی مرزا قادیانی نے فرمایا کہ آج سورج غروب نہیں ہوگا کہ آتھم مر جائے گا۔ لیکن مرزا قادیانی کی